اردو

urdu

ETV Bharat / state

کمسن بچی دو لاشوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟

غلام حسن کی آٹھ سالہ کمسن بچی اپنی ماں کی لاش کو دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ اپنی ماں کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی ہے، تاہم بڑی بہن کی لاش نہ ملنے کی وجہ سے وہ بار بار جائے حادثہ پر جاکر بلک بلک کر اس کا انتظار کرتی ہے۔

آٹھ سالہ کمسن بچی دو لاشوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟
آٹھ سالہ کمسن بچی دو لاشوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟

By

Published : Jun 20, 2020, 11:10 PM IST

جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے مرہامہ علاقے میں چند روز قبل ایک دل دہلانے والا واقعہ پیش آیا جب دریائے جہلم میں اپنی کمسن بیٹی کو ڈوبنے سے بچانے کے دوران ماں بیٹی دونوں غرقاب ہو گئیں۔

آٹھ سالہ کمسن بچی دو لاشوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گی؟

مقامی لوگوں کے مطابق سلیمہ نامی خاتون اپنی بارہ سالہ کمسن بیٹی نگہت سمیت اُس وقت حادثہ کا شکار ہو گئیں جب وہ دریائے جہلم کے کنارے سبزی دھو رہی تھیں۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر کار سلیمہ کو معمولی سبزی دھونے کے لیے دریا پر جانے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔

دراصل سلیمہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی، ان کا شوہر غلام حسن ڈار مزدوری کرکے اپنے اہل و عیال کا پیٹ پال رہے ہیں۔ غربت کے سبب ان کا سترہ سالہ فرزند شاہد بھی والد کے ساتھ مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلانے میں جُٹا ہوا ہے۔

محنت مشقت سے ایک ایک پیسہ جوڑ کر کئی برسوں تک دونوں باپ بیٹے مکان کا صرف آدھا ادھورا ایک کمرہ تیار کر سکے ہیں۔

غربت کے سبب غلام حسن اپنےگھر میں بیت الخلاء یا باتھ روم کی سہولت کا انتظام بھی نہیں کر پائے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں پانی سے جڑی ہر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بستی سے متصل بہہ رہے دریا جہلم پر روزانہ کئی بار جانا پڑتا تھا۔

صدمہ میں پڑے غلام حسن کیمرہ کے سامنے نہیں بول پائے، تاہم انہوں نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کئی بار حکام سے سرکاری اسکیم سوچھ بھارت مشن کے تحت بیت الخلاء اور وزیر اعظم آواس یوجنا کے تحت گھر تعمیر کرانے کی گزارش کی تاہم ہر بار انہیں نظر انداز کیا گیا۔

غلام حسن سمیت گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ علاقہ میں واٹر سپلائی نام کی ہے مگر کام کی نہیں۔ اگرچہ علاقہ میں گزشتہ کئی برس قبل ایک فلٹریشن پلانٹ تعمیر کیا گیا تاہم وہ مکمل طور بے کار ہے۔ جس کی وجہ سے غریب عوام کو پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دریا کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

غلام حسن نے کہا کہ اگر ان کے گھر میں پانی و باتھ روم کی سہولت دستیاب ہوتی تو ان کی بیوی اور کمسن بیٹی دریا کا شکار نہیں ہوتے۔ اور ان کا گھر برباد ہونے سے بچ جاتا۔

وہیں اس واقعہ کے بعد غلام حسن کی آٹھ سالہ چھوٹی بیٹی صاحبہ کے دماغ پر گہرا اثر پڑا ہے، دراصل وہ اس وقت وہاں پر موجود تھی جب ان کی آنکھوں کے سامنے اُن کی ماں اور بڑی بہن غرقاب ہو گئی تھیں، کمسن بچی اپنی ماں کی لاش کو دیکھ کر سمجھ گئی کہ وہ اپنے ماں کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئی، تاہم بڑی بہن کی لاش نہ ملنے کی وجہ سے وہ تذبذب کا شکار ہوئی ہے اور بار بار حادثہ کے مقام پر جاکر رو رو کر اپنی بہن کا انتظار کرتی ہے۔

ادھر مقامی لوگ سرکار کی عدم توجہی پر برہمی کا اظہار کر رہے ہیں وہ حکومت سے علاقہ میں پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے اور متاثرہ خاندان کی ہر ممکن مدد کرنے کا پُر زور مطالبہ کر رہے ہیں، تاکہ مستقبل میں کسی اور غریب کا گھر اُجڑنے سے بچ جائے۔

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جب غلام حسن کی شکایات ضلع ترقیاتی کمشنر اننت ناگ کے کے سدھا کی نوٹس میں لانے کی کوشش۔ تو انہوں نے کسی ضروری کام کی وجہ سے کیمرہ کے سامنے بات کرنے سے منع کیا، تاہم انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ معاملہ کو سنجیدگی سے لے کر متعلقہ سرکاری عہدیداروں سے جواب طلب کریں گے

واضح رہے کہ مرہامہ گاؤں میں رواں ماں کی سولہ تاریخ کو دوپہر کے بعد یہ واقع اس وقت پیش آیا جب سلیمہ دریا پر سبزی دھو رہی تھی اسی اثنا میں ان کی تیرہ سالہ کمسن بیٹی ندہت نے نہانے کی ضد کی جس دوران وہ دریا میں ڈوبنے لگی سلیمہ نے اپنی بیٹی کی جان بچانے کے لئے دریا میں چھلانگ لگائی تاہم وہ بھی پانی کے تیز بہاؤ میں غرقاب ہو گئی، ان کی نو سالہ چھوٹی بیٹی صاحبہ دریا کے کنارے پر اپنی آنکھوں سے اپنی ماں اور بہن کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہی تھی جس دوران اس نے شور مچایا۔

بچی کے چیکھنے کی آواز کے بعد مقامی ناؤ چلانے والوں نے سلیمہ کی لاش دریا سے بازیاب کی تاہم، ایس ڈی آر ایف، پولیس مقامی لوگ کمسن ندہت کی تلاش کرنے میں جٹے ہوئے ہیں تاہم چار روز گزر جانے کے بعد بھی ندہت کو ابھی تک بازیاب نہیں کیا گیا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details