اردو

urdu

By

Published : Mar 18, 2021, 1:07 PM IST

ETV Bharat / state

تاریخ کا گواہ 'ویری ناگ چشمہ'

سنہ 1620 میں، ویری ناگ چشمے کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لئے کام شروع کیا گیا اور اسے سرخ پتھروں کی بناوٹ سے ایک گولائی والے تالاب کی شکل دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چشمے کے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بھی تعمیر کیا گیا جس میں متعدد چنار کے درخت لگا کر باغ کو جاذب نظر بنایا گیا۔

تاریخ کا گواہ 'ویری ناگ چشمہ'
تاریخ کا گواہ 'ویری ناگ چشمہ'

وادی کشمیر کو قدرت نے اپنی خاص کاریگری سے سجایا ہے اور اسے لاتعداد چشموں کی نعمت سے نوازا ہے۔ تاہم، ویری ناگ چشمہ ایک ایسا منفرد چشمہ ہے جو یہاں کے آبی وسائل کے لئے کافی اہمیت کا حامل ہے۔
جی ہاں! ضلع اننت ناگ کا تاریخی چشمہ 'ویری ناگ' پیر پنچال کی خوبصورت اور سر سبز پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔
یہ چشمہ نہ صرف مذہبی اور تاریخی اعتبار سے خصوصی حیثیت رکھتا ہے بلکہ یہ وادئ کشمیر کے سب سے بڑے دریا 'جہلم' کا منبع مانا جاتا ہے۔
مورخین کے مطابق ویری ناگ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ 'ویری' اس علاقہ کا پرانا نام تھا اور 'ناگ' کشمیری زبان میں قدرتی چشمے کو کہتے ہیں۔ اس لیے تاریخی چشمہ کی موجودگی سے اس پورے علاقے کو صدیوں سے ویری ناگ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو ضلع صدر مقام اننت ناگ سے تقریباً 32 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔

تاریخ کا گواہ 'ویری ناگ چشمہ'
کہا جاتا ہے کہ ماضی میں اس چشمہ سے پوری شدت سے پانی بہہ رہا تھا اور ایک روز مغل سلطنت کے شہنشاہ جہانگیر کی نگاہ اس چشمے پر پڑی تو انہوں نے اپنے کاریگروں کو چشمہ کی خاص اور منفرد تعمیر کا حکم دیا۔
اس کے بعد سنہ 1620 میں، ویری ناگ چشمے کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لئے کام شروع کیا گیا اور اسے سرخ پتھروں کی بناوٹ سے ایک گولائی والے تالاب کی شکل دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چشمے کے اطراف میں ایک خوبصورت باغ بھی تعمیر کیا گیا جس میں چنار کے متعدد درخت لگا کر باغ کو جاذب نظر بنایا گیا۔ چشمہ کی تعمیر آٹھ کونوں اور چالیس محرابوں پر مشتمل ہے۔
مورخین کے مطابق یہ چشمہ تقریباً 40 گز پر محیط ہے۔ چشمہ کے کناروں کی گہرائی تقریبا 15 گز بتائی جا رہی ہے۔ تاہم بیچ کی گہرائی ابھی تک واضح نہیں ہے۔ اس چشمے کی طرز تعمیر خاص ترکیب و ترتیب سے کی گئی ہے جس سے سر سبز و شاداب پہاڑ کا عکس اس پر پڑتا ہے اور چشمے کا پانی گہرے نیلے رنگ کا نظر آتا ہے۔ چشمے کے اندر کئی نایاب اقسام کی مچھلیاں بھی موجود ہیں۔
اس تاریخی چشمے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے نہ صرف ریاستی بلکہ ملکی و غیر ملکی سیاح بھی بڑی تعداد میں ہر برس یہاں آتے ہیں اور اس مقام پر خوبصورت اور پُر سکون لمحات گزار کر لوٹ جاتے ہیں۔
چشمے کا پانی گول تالاب میں اکٹھا ہو کر ایک نہر کی صورت میں باہر نکل جاتا ہے۔ اسی پانی کے ساتھ کھنہ بل کے مقام پر دریائے لدر اور سنگم کے مقام پر رمبی آڑہ مل کر ایک بڑے دریا کی شکل اختیار کرتے ہیں جسے دریائے جہلم کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اگرچہ موسمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے وادی میں موجود اکثر قدرتی چشموں کا پانی یا تو کم ہوگیا یا سکڑ گئے ہیں۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ اس چشمہ کی خاص بات یہ ہے کہ سینکڑوں برسوں کے بعد بھی اس کے بہاؤ میں آج تک کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔
ویری ناگ چشمہ کے پانی سے نہ صرف ضلع کے مختلف علاقوں کی سینکڑوں کنال اراضی سیراب ہو جاتی ہے بلکہ پینے کے خاطر اس کا صاف و شفاف پانی ہزاروں گھروں کو سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ اس کا پانی ہاضمے کے لئے بھی کافی مفید ہے۔وہیں، دریائے جہلم وادی کے درمیان گزرتا ہے۔ اس کے کناروں پر لاکھوں کی آبادی مقیم ہے۔ جو اس دریا سے اپنی روزی روٹی حاصل کرتے ہیں، جن میں خاص کر مچھوارے، ریت نکالنے والے اور ہاوس بوٹ والے شامل ہیں۔
ویری ناگ کے نہ صرف مقامی، بلکہ بھارت - پاکستان تعلقات کے حوالے سے بھی یہ خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ چشمہ دریائے جہلم کا ایک اہم حصہ مانا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے اس چشمہ کا بالواسطہ طور پر اندس واٹر ٹریٹی کے ساتھ تعلق ہے۔

واضح رہے کہ 19 ستمبر 1960 کو کراچی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان آبی وسائل کو لے کر اندس ٹریٹی واٹر کے نام سے ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں پاکستان کو تین دریاؤں، جہلم، سندھ اور چناب پر حق دیا گیا۔ جبکہ اس معاہدے کے تحت بھارت کو ستلج، بیاس اور راوی پر حقوق حاصل ہوئے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details