اہلیانِ کشمیر اس خوف ناک منظر کو ابھی تک نہیں بھولے ہیں جب انہیں سنہ 2014 میں تباہ کن سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سرکاری تخمینہ کے مطابق اس سیلاب کے دوران 43 ہزار کروڑ کا نقصان ہوا تھا جب کہ تقریباً 250 لوگ سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔
سیلاب کے بعد اُس وقت کی حکومت نے وادی کے تمام دریاﺅں خاص کر جنوبی کشمیر کے دریاﺅں جن میں دریائے لدر، دریائے برنگی، دریائے آرپتھ، دریائے ساندرن اور دریائے ویشو شامل ہیں کی ڈریجنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاکہ مستقبل میں انتہائی خطرناک سیلابی صورتحال کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑے۔
'دریاﺅں کی ڈریجنگ نہ ہوئی تو تباہ کن سیلاب آسکتا ہے'
جس کے بعد باضابطہ طور دریاﺅں کی ڈریجنگ کا کام شروع کیا گیا۔ تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر قریب ایک ماہ کے بعد ڈریجنگ کا کام بند کیا گیا۔ تب سے لے کر آج تک وہ کام دوبارہ شروع نہیں کیا گیا۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دریاؤں میں جمع شدہ ملبہ کے انبار اور دریاؤں کے کنارے ناجائز تجاوزات کی وجہ سے یہاں کے دریاﺅں میں گنجائش کم ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معمولی بارش کے دوران سیلاب کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت اور ورلڈ بینک کی جانب سے وادیٔ کشمیر کے دریاﺅں اور ندی نالوں کی دیکھ ریکھ اور ڈریجنگ کے لئے خطیر رقم واگزار کی جاچکی تھی۔ لیکن اس ضمن میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا نتیجتاً وہ رقومات واپس ہوئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وادی کے دریاﺅں کی گہرائی بڑھانے یا ڈریجنگ کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو 2014 سے بھی زیادہ بھیانک سیلاب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات جموں وکشمیر خاص کر وادیٔ کشمیر کے گلیشیروں پر واضح ہیں اس لئے گلیشیر ٹوٹنے کی صورت میں بھی سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کشتواڑ کے دچھن میں بادل پھٹنے سے 7 افراد ہلاک، درجنوں لاپتہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ 2014 کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس معاملے کو کھٹائی میں ڈال کر وادیٔ کشمیر کو ایک بار پھر سیلاب کے خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس لئے وادی خاص کر جنوبی کشمیر کے دریاﺅں کی ڈریجنگ وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کام کو ترجیحی بنیادوں پر دوبارہ شروع کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو رواں برس ایک بہت بڑا سیلاب یقینی ہے۔