نئی دہلی:دنیا میں چند ہی لوگ ایسے ہوں گے جن میں خداداد صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ سید شاہد حکیم یہ وہ نام ہے جس نے کھیل کا میدان، طبی شعبہ اور فضائیہ جیسی خدمات میں اپنی پوری زندگی ملک کے نام وقف کردی۔ جنہوں نے ملک میں فٹبال کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سید شاہد حکیم پوری فٹ بال برادری کے لیے ایک جانا پہچانا نام ہے۔ اس مایہ ناز شخصیت نے حیدرآباد اور ہندوستانی فٹ بال کے لئے ایک بہترین مڈفیلڈر کھلاڑی، ریفری اور کوچ کے طور پر اپنی خدمات انجام دیں ،جنہیں ملک کبھی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ سید شاہد حکیم 23 جون 1939 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید عبدالرحیم بھی اپنے زمانے کے مشہور فٹبالر اور کوچ رہے ہیں۔ بحیثیت ایک کھلاڑی حکیم کی صلاحیتیں کم عمری میں ہی عیاں ہونے لگی تھیں۔ ان کی تعلیم و تربیت ان کے خاندان اور ملک کے لئے ایک عظیم اثاثہ ثابت ہوئی۔ آل سینٹس ایچ ایس ، نظام کالج اور پھر عثمانیہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔اس زمانے میں ان کی تعلیم کی سطح بہت سے دوسرے فٹبالرز سے بالاتررہی۔ ان میں نوعمری میں ہی وہ خوبی پیدا ہوگئی تھی جس نے انہیں غیر ملکیوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے اور ہر چیز سیکھنے کے قابل بنادیا تھا۔
انہوں نے اپنی زندگی کے تقریباً 50 برس مجموعی طور پر ہندوستانی فضائیہ اور ہندوستانی فٹ بال اور حکمت کے لئے وقف کئے ۔ سید شاہد نے ہندستانی فضائیہ میں ملازمت کی ۔ انہیں ہندوستانی فضائیہ میں اسکواڈرن لیڈر کے طور پر بھی تعینات کیا گیا ۔والدحکمت سے تعلق رکھتے تھے تو بطور حکیم والد کے ساتھ بھی اس پیشہ سے وابستہ رہے۔ پھر فٹبال سے غیر معمولی دلچسپی بھی رہی۔ اسی بنا پر ان میں کثیر الجہتی خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ لہذا ایک ہی شخص میں اس طرح کی صلاحیتیں ہونا ، دیگر شخصیات سےا س کو ممتاز کرتی ہیں۔ اس دوران انہوں بحیثیت ایک کھلاڑی ، اسسٹنٹ کوچ ، ہیڈ کوچ ، ریفری اور منیجر کے طور پر مختلف کردار ادا کرتے ہوئے ہندوستانی فٹ بال کی5 دہائیوں تک خدمت انجام دیں ۔ فٹ بال کی ایک مشہور شخصیت ہونے کے علاوہ ، انہوں نے ہندوستانی فضائیہ میں افسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ سید شاہد حکیم کا تعلق اس دور سے تھا جب حیدرآباد ہندوستانی فٹ بال کے عروج پر تھا۔ سید حکیم ہندوستان کے عظیم کھلاڑیوں کے ہم عصر رہے۔ ان کے ساتھیوں میں معروف گول کیپر پیٹر تھنگ راج ، ڈی کنن ، ایس اے لطیف ، یوسف خان ، ایس نارائنن ، ایچ ایچ حمید اور دوسرے معروف کھلاڑی شامل تھے۔ ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق حیدرآباد اور سکندرآباد سے تھا۔
شاہد ایک سنٹرل مڈفیلڈر کے طور پر کھیلتے تھے ۔ درحقیقت یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو فٹ بال کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے ان کے علم اور مہارت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایشیائی کھیلوں اور 1956 کے میلبورن اولمپکس کے سیمی فائنل میں ہندوستان کو دو گولڈ میڈل دلائے ۔ انہیں 1960 کے روم میں ہونے والے اولمپک گیمز کے لیے ہندوستانی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہ آخری موقع تھا جب ہندوستان نے اولمپک گیمز کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ اگرچہ ہندوستان ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے میں داخل ہونے میں آسانی سے ناکام رہا ، لیکن یہ کھیل حکیم کے لیے سیکھنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ سال 1950 کی دہائی کے آخر میں شاہد اپنے کھیل کے عروج پر تھے۔ وہ حیدرآباد اسٹیٹ ٹیم کے رکن تھے جس نے 1957 میں سنتوش ٹرافی جیتی تھی۔ ان کی شاندار صلاحیتوں اور ہندوستانی فٹ بال میں ان کی بڑھتی ہوئی حیثیت کی وجہ سے ، انہیں جکارتہ ، سنگاپور اور ملائیشیا میں ہونے والے پری اولمپک مقابلوں میں ہندوستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا ۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے فٹ بال کھلاڑی سید شاہد حکیم کا انتقال