نئی دہلی: سید عابد علی ایک ورسٹائل ہندوستانی کرکٹر تھے۔ وہ ایک محنتی بلے باز ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیم پیس گیند باز اور شاندار فیلڈر تھے۔ عابد نے 1958 میں حیدرآباد جونیئر ٹیم میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بطور کرکٹر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اگلے سال ریاستی رنجی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔
چند سال بعد، انہوں نے 1967 میں اس کامیابی کا مزہ چکھا جب رنجی ٹورنامنٹ میں اپنی پہلی سنچری بنائی۔ جلد ہی ان کی قسمت چمکی اور انہیں اسی سال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کرکٹ دورے کے لیے مدعو کیا گیا ۔ اس سب کے بعد ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔ یہاں عابد علی اپنی مطلوبہ منزل پر پہنچے ۔ انہوں نے اپنا ٹیسٹ ڈیبیو آسٹریلیا کے خلاف کیا۔ ہندستانی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف میچ کھیلنا تھا اور کپتان منصور علی خان پٹودی زخمی ہوگئے ان کی جگہ عابد کو ملی۔ عابد نے دونوں اننگز میں بالترتیب 33 اور 55 رنز کے عوض 6 وکٹیں لیں۔ یہ ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ کی بہترین ڈیبیو پرفارمنس میں سے ایک تھی۔
انہیں تیسرے ٹیسٹ میں اوپننگ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ یہاں بھی انہوں نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے 47 رن بنائے۔ انہوں نے آخری ٹیسٹ میچ میں 81 اور 78 رنز کی دو شاندار اننگز بھی کھیلیں۔ 1971 میں ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ میں ہندستان کی پہلی فتوحات میں عابدایک نہایت اہم کھلاڑی ثابت ہوئے۔
عابد نے 1975 کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ کے خلاف شاندار 70 رنز بنائے جو ان کی آخری بین الاقوامی اننگز تھی۔ انہوں نے مزید چار سال تک فرسٹ کلاس میچوں میں اپنی شرکت برقرار رکھی۔ ریکارڈز کے مطابق عابد علی نے رنجی ٹرافی ٹورنامنٹ میں حیدرآباد کے لیے 2000 سے زیادہ رن اور سو سے زائد وکٹیں حاصل کیں۔
سال 1968اور69 ان کے کمال عروج کا وقت تھا۔ اس وقت عابد اپنی بہترین پرفارم میں تھے۔ گیند بازی کے ساتھ ساتھ بلے بازی میں بھی انہوں نے شاندار کھیل پیش کیا۔ کیرالہ کے خلاف انہوں 173 کا ذاتی اسکورکیا اوریہی نہیں انہوں نے 1974 میں اوول اسٹیڈیم میں سرے کے خلاف 23 رن پر 6 وکٹیں حاصل کیں۔
عابد نے جتنے بھی ون ڈے کھیلے ان میں ان کی کارکردگی قابل ستائش رہی۔ 1975 کے ورلڈ کپ میں انہوں نے اولڈ ٹریفورڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف ایک اچھا ڈیبیو کیا، 70 رنوں کی شاندار اننگز کھیلی اور چند بلے بازوں کو آؤٹ کیا۔