سڈنی: جد جہد سے زیادہ قسمت کی وجہ سے ٹی 20 ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچی بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم بدھ کے روز سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں نیوزی لینڈ کے خلاف اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے ارادے سے اتر گی۔ T20 World Cup semifinal
دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا سیمی فائنل میچ 9 نومبر کو دوپہر 1.30 بجے کھیلا جائے گا۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے پاکستان کا پلڑا بھاری نظر آرہا ہے، لیکن ورلڈ کپ میں اب تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی نیوزی لینڈ کے خلاف اس کا راستہ آسان نہیں ہوگا۔ اب تک کھیلے گئے تمام ٹی 20 ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کے درمیان یہ ساتواں مقابلہ ہوگا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اب تک کے میچوں میں پاکستان نے کیوی ٹیم کے خلاف چار مرتبہ کامیابی حاصل کی ہے، جب کہ دو مرتبہ اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔
جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے عین قبل گھر پر نیوزی لینڈ کو شکست دے کر سہ فریقی سیریز جیتنے والی بابر کی ٹیم پہلے ہی نفسیاتی برتری حاصل کر چکی ہے۔ سیمی فائنل میں پاکستانی ٹیم اس کا فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ پاکستان کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات ہفتے کی شام تک تاریک رہے، لیکن اتوار کی صبح نے ان کے لیے امید کی کرن روشن کر دی جب نیدرلینڈز نے زبردست الٹ پلٹ کرتے ہوئے مضبوط جنوبی افریقہ کو 13 رن سے شکست دی۔ اب صرف پاکستان کے لیے بنگلہ دیش کو شکست دے کر سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنا باقی تھا اور بابر اعظم کی ٹیم، جسے اہم میچ جیتنے کی عادت ہے، نے اسے ممکن بنایا۔
پاکستان کی موجودہ ورلڈ کپ مہم کا آغاز اس وقت مایوس کن انداز میں ہوا جب ٹیم کو اپنے روایتی حریف بھارت کے ہاتھوں شکست کے بعد کمزور زمبابوے کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد اس کے ورلڈ کپ کی دوڑ سے باہر ہونے کے امکانات مزید گہرے ہو گئے، لیکن ٹیم نے اگلے تین میچوں میں جیت کے ساتھ زبردست واپسی کی سیمی فائنل میں پہنچنے والی پاکستانی ٹیم اب خطاب کی مضبوط دعویدار سمجھی جا رہی ہے۔
پاکستان کی کارکردگی کا دارومدار فاسٹ بالر شاہین شاہ آفریدی کی قیادت والی مضبوط باؤلنگ اٹیک پر منحصر ہوگی۔ وہیں اب تک چیلنجنگ اسکور بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مڈل آرڈر بلے باز شان مسعود، افتخار احمد اور شاداب خان ایک بار پھر شائقین سے شائقین کی امیدیں وابستہ ہوں گی۔ اگر کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی ٹیم کو تیز اور بڑا آغاز دلانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستانی ٹیم کی راہیں آسان ہو سکتی ہیں۔