ممبئی: بھارتی ٹیم اب ورلڈ کپ 2023 کے فائنل میں پہنچ چکی ہے۔ ٹورنامنٹ میں بھارت کا اب تک کا سفر بہت شاندار رہا ہے کیونکہ ابھی تک بھارتی تیم کو کوئی بھی ٹیم شکست نہیں دے سکی ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام کھلاڑیوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اپنا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ خاص طور پر بھارت کے بولنگ ڈیپارٹمنٹ نے بے مثال اور غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حقیقت میں اس ٹیم نے کرکٹ کے تمام شعبوں میں شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارتی بلے بازوں نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ جیسی ٹیم کے خلاف جس بے باک کھیل کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل دید اور متاثر کن ہے کیونکہ اس ٹیم کے خلاف بھارتی ٹیم نے ورلڈ کپ کی تاریخ میں کبھی بھی سیمی فائنل میچ نہیں جیتا تھا۔ بھارتی ٹیم نے ملک کے 9 شہروں میں مختلف میچوں کے دوران کپتان روہت شرما اور ہیڈ کوچ راہل ڈراوڈ کی قیادت میں ٹیم کے تھنک ٹینک کی وضع کردہ حکمت عملی سے ٹورنامنٹ میں ہر حریف کو شکست دی۔
ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم مینجمنٹ کی طرف سے ہاردک پانڈیا کے متبادل پر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی لیکن ہاردک کی چوٹ بھارتی ٹیم کے لیے ایک نعمت کی طرح ثابت ہوئی اور ان کی جگہ محمد شامی کو پلیئنگ الیون میں جگہ مل گئی اور پھر شامی کے مہلک بولنگ نے بھارت کی ورلڈ کپ مہم میں چار چاند لگا دیا۔ ٹیم کے تمام 11 کھلاڑیوں نے شاندار طریقے سے اپنا کردار ادا کیا لیکن کپتان روہت نے جس بے باکی اور بے لوث ہوکر ٹیم کی قیادت اور بلے بازی کی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے کیونکہ اس دوران انھوں نے انفرادی ریکارڈ بنانے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ بھارتی ٹیم کو تیز شروعات دینے پر اپنے آپ کو فوکس کیا۔
کوہلی کی کارکردگی کو کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کی کہانی ثابت قدمی اور استقامت کو ایک اور سطح پر لے جانے کے بارے میں ہے۔ کوہلی آٹھ دفعہ ٹورنامنٹ میں 50 پلس رنز جس میں 3 سنچریاں بھی شامل ہیں، ورلڈ کپ میں 711 رنز کے ساتھ سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ شریس ائیر جو ٹورنامنٹ کے ابتدائی مرحلے میں شارٹ گیند کی کمزوریوں اور چھوٹے اسکور کرنے کی وجہ سے سب کی نظروں میں تھے لیکن اپنے پہلے ورلڈ کپ میں دو سنچریاں اور اہم سیمی فائنل میں سنچری اسکور کرکے اپنے ناقدین کو خاموش کر دیا ۔
اس کے بعد شبمن گل ہیں جنہوں نے ڈینگی میں مبتلا ہونے کے بعد خود کو ٹیم میں شامل کیا لیکن انہوں نے اپنے کپتان کو بہترین سہارا دینے کا کردار ادا کیا اور ضرورت پڑنے پر ہی جارحانہ انداز اختیار کیا۔کے ایل راہل تقریباً چھ ماہ کی مایوس کن اور مشکل چوٹ کی بحالی کے بعد اپنی واپسی سے بہتر کچھ نہیں کر سکتے۔ وکٹ کے پیچھے ان کی موجودگی ان کی بیٹنگ کی طرح قابل تعریف تھی اور مشکل مقت میں ویراٹ کے ساتھ ان کی شراکت داری بھی کبھی کبھی ویراٹ کی بلے بازی کی وجہ سے دب سی جاتی ہے۔