نئی دہلی:کرکٹ کی دنیا میں روی شاستری ایک ایسا نام ہے جس سے بھارت کا ہر کرکٹ پریمی بخوبی واقف ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک روی شاستری نے بھارتی کرکٹ کے لیے بحیثیت ایک آل راؤنڈر اپنی لازمی خدمات انجام دیں۔ روی شاستری 27 مئی 1962 کو مہاراشٹر کے دارالحکومت ممبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام روی شنکر جیادریتھا شاستری ہے۔ ان کے والدین کا تعلق کرناٹک سے تھا۔ والد پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ جب روی شاستری بہت چھوٹے تھے تو وہ گلی ڈنڈا، فٹ بال اور ہاکی جیسے کھیلوں میں اپنا کافی وقت گزارتے تھے، لیکن نو عمری سے ہی انہیں کرکٹ میں سب سےزیادہ دلچسپی رہی۔ شاستری نے اسکول کے زمانے سے ہی کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ کرکٹ کے جنون کو دیکھتے ہوئے انہیں 9ویں جماعت میں ہی اسکول کی کرکٹ ٹیم میں شامل کر لیا گیا تھا۔ جس میں ان کے کوچ ڈیسائی سر نے کرکٹ سیکھنے میں ان کی بہت مدد کی۔ میٹرک کی تعلیم کے بعد روی شاستری نے آر اے پودار کالج میں داخلہ لیا۔
سال 1977 میں روی شاستری کی قیادت میں ان کی ٹیم نے پہلی بار جائلز شیلڈ ٹرافی جیت کر تاریخ رقم کی۔ روی شاستری کے شاندار کھیل کو دیکھتے ہوئے، صرف 17 سال کی عمر میں، انہیں رانجی ٹرافی کھیلنے کے لیے مہاراشٹر کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔کالج میں داخلہ لینے کے اگلے ہی برس ان کو ہندوستان کی انڈر 19 ٹیم میں شامل کیا گیا۔ روی شاستری آل راؤنڈر تھے۔جس کالج میں شاستری نے تعلیم حاصل کی اس کرکٹ اکیڈمی نے بہت اچھے کرکٹرز پیدا کیے ۔ روی شاستری ابتدائی دنوں میں بمبئی کے لیے کھیلا کرتے تھے۔وہ ممبئی کے سب سے کم عمر کرکٹر تھے۔ ان کی کپتانی میں بمبئی نے رنجی ٹرافی پر بھی قبضہ کیا۔ شاستری نے گلیمورگن کے لیے کاؤنٹی کرکٹ کے 4 سیزن بھی کھیلے۔انہوں نے بطور کرکٹر ہندوستانی کرکٹ ٹیم کے لیے 1981 سے 1992 تک ٹیسٹ کرکٹ اور ایک روزہ بین الاقوامی کرکٹ کھیلی ہے۔ انہوں نے اپنے کرکٹ کیریئر میں اسپن بالر اور بلے باز کا اہم کردار ادا کیا ۔ اسی وجہ سے وہ آل راؤنڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔
سال 1985 میں روی شاستری کی قیادت میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ سیریز میں شرکت کے لیے آسٹریلیا پہنچی۔ روی شاستری نے یہاں اپنی قیادت سے سب کو متاثر کیا۔ کرکٹ کی عالمی چیمپئن شپ کے دوران روی شاستری نے گیری سوبرز کے 1 اوور میں 6 چھکے لگائے۔ اسی سال انہیں ’چیمپئن آف چیمپئنز‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ایک بلے باز کے طور پر روی شاستری اپنے چپاتی شاٹ (پیڈ سے ایک جھٹکا) کے لئے کافی مشہور رہے۔ وہ اس شاٹ کو اتنے دفاعی انداز میں کھیلتے تھے کہ مخالف ٹیم کے گیند بازی کی تمام حکمت عملی ان کے اس شاٹ کےآگے فیل ہوجاتی تھی۔ حالانکہ روی شاستری کو ایک جارحہ بلے باز نہیں کہا جاسکتا لیکن وہ ضرورت کے مطابق اپنی اسٹرائیک ریٹ میں اضافہ کردیتے تھے۔ شاستری کی بلے بازی کی مثال کرکٹ کی دنیا میں شاید ہی مل سکے۔ وہ اتنے اطمینان اور پرسکون انداز میں بلے بازی کرتے تھے کہ حریف ٹیم کے گیند باز ان کو آؤٹ کرنے کے تمام تر حربے استعمال کرلیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے انگلینڈ کے خلاف 9 گھنٹے 21 منٹ تک مسلسل بلے بازی کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔
سال 1985 کے شارجہ کپ کو کوئی نہیں بھول سکتا کیونکہ فائنل میں ہندستان نے پاکستان کو صرف 125 رن بنا کر شکست دی تھی۔ اس میچ کے ہیرو شاستری تھے اور اس کے بعد وہ طویل عرصے تک ہندوستان کے نائب کپتان رہے اور جب گواسکر نے کپتانی چھوڑی تو شاستری کو مستقل شکل میں کپتانی ملی۔ روی شاستری کو اپنے قد کا بہت فائدہ ملا۔ 6 فٹ 3 انچ ہونے کی وجہ سے ہی شاستری کو کرکٹ کا قطب مینار کہا جاتا تھا۔ لمبا اور چوڑا ہونے کی وجہ سے شاستری ایک طرف تو بلے بازی کرتے ہوئے گیند کواچھے سے کھیلنے کی صلاحیت رکھتے تھے تو دوسری طرف اپنی اسپین گیند بازی سے بلے باز کو کافی حد تک پریشان رکھتے تھے ۔ عام طورپر بلے باز ان کی گیندوں کو سمجھنے کی بھول کرتے اور اپنا وکٹ گنوا بیٹھتے۔ ان کی گیند بازی کا ایک بہترین نمونہ 1981 میں ایرانی ٹرافی میں دیکھنے کو ملا جب انہوں نے 101 رن دے کر نو (9)وکٹیں حاصل کی تھیں۔ ان کا یہ ریکارڈ تقریباً 20 سال تک قائم رہا۔
یہ بھی پڑھیں: Azhar Uddin: اظہرالدین وہ مایہ ناز کھلاڑی ہیں جو کسی تعارف کے محتاج نہیں