سنہ 1989 میں جس نام کو سن کر لوگوں ناک بھویں چڑھا لیتے تھے اب سب کی توجہ صرف اسی نام پر مرکوز تھی اور ہر کسی کی زبان پر صرف وہی نام تھا اور پھر شروع ہوا تھا ایک نیا اینتھیم سانگ، سچن ... سچن ... سچن ...
یہ اینتھم سانگ 24 برسوں تک بھارتی کرکٹ کی جان بنا رہا دنیا کے ہر کونے میں کرکٹ شائقین نے اسے گنگنایا۔
گھروں میں ٹی وی کے سامنے نظریں لگائے یا ریڈیو پر کان سٹائے ہوئے کرکٹ کے مداح بس سچن ہی کے نام کا مالا جپ رہے تھے اور سب کی زبان پر سچن سچن ہی تھا۔
سچن کی صلاحیت پوری دنیا دیکھ چکی تھی اور ان کے شاٹس کے لوگ دیوانے ہو چکے تھے، سنہ 1996 عالمی کپ کپ آتے آتے سچن تیندولکر ٹیم کی جان بن چکے تھے اور پورا ملک کرکٹ کا دیوانہ ہو چکا تھا یا یوں کہیے کہ کرکٹ اس ملک میں ایک مذہب کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
اور سنہ 1998 میں اس مذہب کا خدا بھی اس دیوانے ملک کو مل گیا، 21 برس قبل اپریل ماہ میں ہی بھارت کی سرزمین پر بھارت، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان سہ رخی سیریز کھیلی گئی تھی۔
اس سیریز میں سچن نے آسٹریلیا کے خلاف ایک شاندار سنچری بنائی تھی اس سیریز میں بھارتی ٹیم نے اپنے سارے میچ جیتے، لیکن فائنل میں آسٹریلیا نے آسانی سے شکست دے دی تھی۔
اس شکست کی مایوسی سب کو تھی، بھارتی ٹیم تمام میچ جیت کر فائنل کی رکاوٹ پار کرنے میں ناکام رہی اور اس ہار کا حساب لیا جانا تھا اور اس کا موقع بھی بھارتی ٹیم کو اسی ماہ ملا جب ایک اور سہ رخی سیریز کھیلی گئی، بھارت اور آسٹریلیا کے علاوہ تیسری ٹیم زمبابوے تھی۔ یہ سہ رخی سیریز شارجہ میں کھیلی گئی تھی۔
شارجہ میں سہ رخی سیریز بنام 'کوکا کولا کپ' کا انعقاد کیا گیا، آسٹریلیا اپنے سارے میچ جیت کر فائنل میں پہنچ گیا تھا جبکہ دوسری جگہ کے لئے مقابلہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان تھا، بھارت یا تو میچ جیت کر یا صرف بہتر رن ریٹ حاصل کر نیوزی لینڈ سے آگے نکل سکتا تھا. لیکن سامنے بہترین ستاروں سے آراستہ آسٹریلوی ٹیم تھی
اس میچ میں آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 284 رن بنائے، یہ ہدف اس دور کے لحاظ سے آسان نہیں تھا اور بھارت کو نیوزی لینڈ سے آگے نکلنے کے لئے کم سے کم 254 رن بنانے تھے۔
بھارتی ٹیم کا آغاز سست رہا پھر چھٹے اوور میں سچن نے مائیکل كاسپرووچ کو مسلسل 2 چھکے مارے، سچن کے اچانک اس طور پر آسٹریلوی ٹیم چونک گئی اس کے بعد سچن نے تابڑ توڑ حملہ کرنا شروع کیا۔
جب بھارت کا اسکور 31 اوور میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 143 رنز تھا، اسی وقت شارجہ میں زبردست طوفان آ گیا یہ طوفان اتنا خطرناک تھا کہ کھیل تقریباً آدھے گھنٹے تک روکنا پڑا، تمام کھلاڑی میدان پر ہی لیٹ گئے. اس واقعہ کو یاد کرتے ہوئے سچن اپنی سوانح عمری 'پلیئنگ اٹ مائی وے' میں لکھا ہے کہ 'وہ ہم سب کے لئے ڈراؤنا تجربہ تھا، پہلی بار ایسا کچھ دیکھا تھا اور مجھے محسوس ہوا تھا کہ سب طوفان میں اڑنے لگے۔
آدھے گھنٹے بعد جب طوفان تھما اور حالات قابو میں آئے تو ٹیم کے سامنے نیا چیلنج تھا، ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت ٹارگیٹ میں تبدیلی کی گئی اور اب بھارت کو بنانے تھے 46 اوور میں 276 رن یعنی 4 اوور کم لیکن ٹارگیٹ میں صرف 8 رنز کی کمی اور اپنا رن ریٹ نیوزی لینڈ سے بہتر کرنے کے لیے اب 46 اوورز میں 237 رن بنانے تھے۔
اس بارے میں سچن اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ 'میرے بہت سے ساتھی کھلاڑی سوچ رہے تھے کہ ہمیں صرف 100 رنز بنا کر فائنل میں کوالیفائی کرنے پر توجہ دینا چاہئے، لیکن میں میچ جیت کر فائنل میں جانے کا من بنا چکا تھا کیوں کہ میں اس دن گیند کو اچھے سے ہٹ کر رہا تھا۔
اس کے بعد شارجہ میں دوسرا طوفان آیا لیکن اس طوفان نے صرف آسٹریلیا کو پریشان کیا اور ا طوفان کا نام تھا سچن تیندولکر۔ سچن کا ایسا انداز پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا تھا۔