اردو

urdu

انگلینڈ۔نیوزی لینڈ عالمی کپ سفر:خصوصی رپورٹ

By

Published : Jul 13, 2019, 9:48 PM IST

انگلینڈ اینڈ ویلز میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ 2019 کے خطابی مقابلے میں میزبان انگلینڈ فائنل میں نیوزی لینڈ سے نبرد آزما ہوگی، کل ہونے والے عالمی کپ فائنل میں جو بھی ٹیم جیت درج کرے گی وہ اس کا پہلا عالمی کپ خطاب ہوگا۔

انگلینڈ۔نیوزی لینڈ

کرکٹ عالمی کی ابتداء سنہ 1975 میں ہوئی تھی اور پہلے تین ایڈیشن کی میزبانی کرکٹ کے موجد انگلینڈ نے کی تھی۔

اب 11 عالمی کپ ٹورنامنٹ ہو چکے ہیں جس میں آسٹریلیائی ٹیم نے سب سے زیادہ 5 مرتبہ عالمی چیمپیئن ہونے کا شرف حاصل کیا ہے جبکہ بھارت اور ویسٹ انڈیز نے دو دو مرتبہ خطابی جیت درج کی ہے، اس کے علاوہ سری لنکا اور پاکستان نے ایک ایک مرتبہ عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔

انگلینڈ۔نیوزی لینڈ

دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ کے موجد انگلینڈ ابھی تک عالمی کپ کا خطاب اپنے نام نہیں کر سکی ہے لیکن اس مرتبہ وہ خطاب کی مضبوط دعویدار ہے اور فائنل میں اس کے سامنے نیوزی لینڈ کا چیلینج ہوگا۔

ورلڈ کپ ٹرافی

انگلینڈ کرکٹ ٹیم کا عالمی کپ سفر:

گروپ مرحلے میں تیسرے نمبر پر قابض میزبان انگلینڈ چوتھی مرتبہ فائنل میں پہنچی ہے، اس سے قبل سنہ 1979، سنہ 1987، اور سنہ 1992 میں وہ فائنل تک کا سفر کر پائی تھی لیکن ایک بھی مرتبہ خطاب جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

سنہ 1979 میں عالمی کپ کی میزبانی انگلینڈ نے کی تھی اور فائنل تک سفر طئے کیا تھا لیکن اس خطابی مقابلے میں اسے ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی، ویسٹ انڈیز نے لگاتار دوسری مرتبہ عالمی چیمپیئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

فائنل مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے مقررہ 60 اوورز میں 9 وکٹوں کے نقصان پر 286 رنز بنائے تھے، ویسٹ انڈیز کی جانب سے سر ووین رچرڈس نے شاندار بلے بازی کا مظاہرہ کیا تھا اور 157 گیندوں میں ناٹ آؤٹ 138 رنز بنائے تھے جبکہ انگلینڈ کی جانب سے فل ایڈمنڈس دو بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔

ہدف کا تعاقب کرنے اتری انگلینڈ کی ٹیم ویسٹ انڈیز کے تیز گیند باز جوئل گارنر کی قاتلانہ گیند بازی کے سامنے ٹک نہیں سکے تھے اور پوری ٹیم 51 اوورز میں 194 رنز پر آؤٹ ہو گئی تھی۔

سنہ 1987 میں انگلینڈ ٹیم نے دوسری بار فائنل تک رسائی حاصل کی تھی لیکن اس مرتبہ بھی اس کے ہاتھ ناکامی آئی اور فائنل مقابلے میں اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

فائنل مقابلے میں آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 50 اوورز میں 5 وکٹیں کھو کر 253 رنز بنائے تھے، آسٹریلیا کی جانب سے ڈیوڈ بون نے 125 گیندوں میں 75 رنز بنائے تھے جبکہ انگلینڈ کی گیندباز ایڈل ہیمنگس نے دو بلے بازوں کو آؤٹ کیا تھا۔

ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے انگلینڈ کی ٹیم ہدف کے قریب آکر بھٹک گئی اور 7 رنز سے مقابلہ گںوادیا۔

انگلینڈ ٹیم 50 اوورز میں 8 وکٹ کھو کر 246 رنز ہی بنا سکی تھی اور یہ مقابلہ اس نے 7 رنز سے گںوا دیا تھا۔

انگلینڈ کی جانب سے بل ایتھی 58 رنز بنائے تھے جبکہ آسٹریلیا کے اسٹیو وا نے 2 وکٹیں حاصل کی تھیں۔

سنہ 1992 میں انگلینڈ نے ایک مرتبہ پھر فائنل تک رسائی حاصل کی تھی لیکن یہاں بھ اسے ناکامی ہاتھ آئی۔

سنہ 1992 کا فائنل مقابلہ انگلینڈ اور پاکستان کے مابین آسٹریلیا کے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ پر ہوا تھا جس میں پاکستان نے 22 رنز سے جیت درج کی تھی۔

پاکستان نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں کپتان عمران خان کی نصف سنچری کی بدولت 6 وکٹوں کے نقصان پر 249 رنز بنائے تھے جس کے جواب میں انگلینڈ ٹیم 49.2 اوورز میں 227 رنز پر ڈھیر ہو گئی تھی۔

پاکستان کی جانب سے عمران خان نے 72 رنز بنائے تھے جبکہ انگلینڈ کے گیندباز ڈیریک پرنگل نے 3 وکٹیں حاصل کی تھیں جبکہ بلے بازی کرتے ہوئے انگلینڈ کی جانب سے نیل فیئربرودر نے سب سے زیادہ 62 رنز بنائے تھے جبکہ پاکستان کی جانب سے مشتاق احمد نے 3 بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔

اور سنہ 2019 یعنی رواں عالمی کپ میں انگلینڈ نے ایک بار پھر سے فائنل میں داخلہ حاصل کیا ہے جہاں اس کا مقابلہ نیوزی لینڈ سے ہوگا۔

اس کے علاوہ انگلینڈ نے سنہ 1975 اور سنہ 1983 میں سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی تھی جبکہ سنہ 1996 اور سنہ 2011 میں اس نے کوارٹر فائنل تک سفر کیا تھا۔

نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کا عالمی کپ سفر:

نیوزی لینڈ نے عالمی کپ 2019 میں مسلسل دوسری مرتبہ فائنل میں داخلہ حاصل کیا ہے، نیوزی لینڈ نے سنہ 2015 میں میں بھی فائنل میں داخلہ حاصلہ کیا تھا لیکن اسے آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس کے علاوہ نیوزی لینڈ ٹیم نے 8 مرتبہ سیمی فائنل تک سفر طئے کیا تھا لیکن دو مرتبہ ہی فائنل میں داخلہ حاصل کر سکی ہے۔

سنہ 1975 میں انگلینڈ میں منعقد ہونے والے عالمی کپ میں نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل تک کا سفر طئے کیا تھا، اس میچ میں نیوزی لینڈ کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے ہوا تھا جس میں ویسٹ انڈیز نے 5 وکٹوں سے جیت درج کی تھی۔

سنہ 1975 سیمی فائنل میچ میں نیوزی لینڈ ٹیم پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 52.2 اوورز میں 158 رنز ہی بنا سکی تھی جبکہ ویسٹ انڈیز نے اس ہدف کو 40 اوورز میں 5 وکٹ کھو کر حاصل کر لیا تھا۔

نیوزی لینڈ کی جانب سے جیوف ہاورتھ نے سب سے زیادہ 51 رنز بنائے تھے جبکہ ویسٹ انڈیز کے گیند باز برنارڈ جولین نے چار بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔

اس کے بعد سنہ 1979 میں بھی سیمی فائنل میں داخلہ حاصل کیا تھا لیکن وہ سیمی فائنل سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی اور اسے انگلینڈ کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی۔

انگلینڈ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مقررہ 60 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 221 رنز بنائے تھے لیکن نیوزی لینڈ ٹیم یہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی تھی اور 60 اوورز میں 212 رنز ہی بنا سکی تھی۔ اور 9 رنز سے میچ گںوادیا تھا۔

انگلینڈ کی جانب سے گراہم گوچ نے سب سے زیادہ 71 رنز بنائے تھے جبکہ نیوزی لینڈ کے میک کین نے دو بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔

اس کے علاوہ نیوزی لینڈ کی جانب سے جان رائٹ نے 69 رنز کی اننگ کھیلی تھی۔

سنہ 1992 میں نیوزی لینڈ نے ایک بار پھر سیمی فائنل مین داخلہ حاصل کیا لیکن اس مرتبہ اسے پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

سنہ 1992 میں سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے مارٹن کرو کی 91 رنز کی بدولت مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 262 رنز بنائے تھے جسے پاکستان نے انضمام الحق کی نصف سنچری کی بدولت 6 وکٹیں کھو کر حاصل کر لیا تھا۔

پاکستان کے لیے وسیم اکرم اور مشتاق احمد نے دو دو وکٹیں جبکہ نیوزی لینڈ کی جانب سے ولی واٹسن نے دو وکٹیں حاصل کی تھیں۔

سنہ 1999 میں بھی نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل تک کا سفر طئے کیا تھا لیکن اسے سیمی فائنل میں اسکا مقابلہ ایک بار پھر پاکستان سے ہوا اور پاکستان نے اسے 9 وکٹوں سے روند کر فائنل کی دوڑ سے باہر کر دیا تھا۔

نیوزی لینڈ نے 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 241 رنز بنائے تھے جسے پاکستان نے سعید انور کی شاندار سنچری کی بدولت محض ایک وکٹ کھو کر حاصل کر لیا تھا۔

سعید انور نے 148 گیندوں میں 113 رنز بنائے تھے۔

سنہ 2007 میں بھی نیوزی لینڈ نے سیمی فائنل میں قدم رکھے لیکن یہاں بھی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور اسے سری لنکا کے ہاتھوں 81 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سری لنکا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے جے وردھنے کے 115 رنز کی مدد سے 5 وکٹ کے نقصان پر 289 رنز بنائے تھے لیکن نیوزی لینڈ اسے حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پوری ٹیم 41.4 اوورز میں 208 رنز پر ہی ڈھیر ہو گئی۔

سنہ 2011 میں بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والے عالمی کپ میں نیوزی لینڈ نے چھٹی مرتبہ سیمی فائنل میں داخلہ حاصل کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح اس کے ہاتھ ناکامی آئی اور اس مرتبہ بھی سری لنکا نے ہی دھول چٹائی اور 5 وکٹوں سے شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا تھا۔

نیوزی لینڈ نے پہلے بلے کا فیصلہ کیا تھا اور 48.5 اوورز میں 217 رنز پر آل آؤٹ ہو گئی تھی جسے سری لنکا نے 5 وکٹیں کھو کر حاصل کر لیا تھا۔

نیوزی لینڈکی جانب سے اسکاٹ اٹائرس نے سب سے زیادہ 57 رنز بنائے تھے جبکہ سری لنکا کے لیے لستھ ملنگ اور اجنتا مینڈس نے تین تین وکٹیں حاصل کی تھیں۔

ہدف کا تعاقب کرنے اتری سری لنکا کی جانب سے تلک رتنے دلشان نے بہترین بلے بازی کا مظاہرہ کیا تھا اور 73 رنز بنائے تھے جبکہ نیوزی لینڈ کے تیز گیند باز ٹم ساؤتھی نے 3 بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔

سنہ 2015 کا عالمی کپ نیوزی لینڈ کے لیے اچھا ثابت ہوا اور اس مرتبہ قسمت نے اس کا ساتھ دیا اور اس ٹیم نے پہلی مرتبی عالمی کپ کے فائنل میں قدم رکھا۔

سنہ 2015 کا عالمی کپ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہوا تھا اور فائنل مقابلہ بھی انہی دو ٹیموں کے مابین ہوا تھا جس میں آسٹریلیا نے بازی مارتے ہوئے ریکارڈ 5 ویں مرتبہ عالمی چیمپیئن بننے کا شرف حاصل کی تھا۔

پہلی مرتبہ فائنل میں پہنچنے والی نیوزی لینڈ ٹیم اس مرتبہ فائنل میں لڑکھڑا گئی اور پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 45 اوورز میں 183 رنز ہی بنا سکی تھی جسے آسٹریلیا نے 3 وکٹ کھو کر ہی حاصل کر لیا تھا۔

اس مرتبہ (سنہ 2019)نیوزی لینڈ نے بھارت کو شکست دے کر فائنل تک رسائی حاصل کی ہے اور اس کا مقابلہ میزبان انگلینڈ سے ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ٹیمیں ابھی تک ایک مرتبہ بھی عالمی کپ خطاب اپنے نہیں کر سکی ہیں اور یہ بات یقینی ہوگئی ہے کہ اس مرتبہ کرکٹ کو نیا عالمی چیمپیئن ملے گا۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details