ون ڈے اور ٹی-20 کرکٹ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی رن چیز کرنے کے معاملے میں ماسٹر ہیں۔ وراٹ کوہلی ٹارگیٹ کا پیچھا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسری اننگز میں بلے بازی کرتے ہوئے انہوں نے بھارت کے لیے کئی میچ جیتے ہیں۔ رن مشین کے نام سے مشہور وراٹ نے حال ہی میں بتایا کہ رن چیز کرنے کے معاملے میں ان کی تحریک کیا ہوتی ہے۔ بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے ون ڈے کپتان تمیم اقبال کے ساتھ فیس بک کے ایک لائیو سیشن میں وراٹ نے بتایا کہ کس طرح وكٹ كيپرز ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
وكٹ كيپرز کی سلیجنگ وراٹ کوہلی کو تحریک دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے وکٹ کیپر مشفق الرحیم کی مثال دیتے ہوئے وراٹ نے بتایا کہ کس طرح سے وکٹوں کے پیچھے سے آرہے سخت لفظ انہیں اور جارحانہ ہونے کے لیے حوصلہ افزا کرتے ہیں۔
بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی وراٹ کوہلی نے بتایا کہ کئی بار مشفق الرحیم جیسے وکٹ کیپر اسٹمپس کے پیچھے سے کچھ کہتے رہتے ہیں اور میں موٹیویٹ ہو جاتا ہوں۔ آپ کو اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں میدان پر کبھی بھی اپنے اوپر شک نہیں کرتا۔ ہدف کا تعاقب کرنے میں مہارت رکھنے والے کوہلی نے کہا کہ بچپن میں بھارتی ٹیم کے میچوں کو دیکھ کر وہ سوچتے تھے کہ وہ ٹیم کی جیت میں مدد کر سکتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایمانداری سے کہوں تو جب میں بچہ تھا اور بھارتی ٹیم کے میچ دیکھتا تھا تو ان کے ہارنے کے بعد سوتے وقت سوچتا تھا کہ میں میچ جیت دلا سکتا تھا۔ اگر میں 380 رن کے ہدف کا تعاقب کر رہا ہوں تو میں نے کبھی محسوس نہیں کرتا کہ اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
کوہلی نے انکشاف کیا کہ ان کے والد نے ان کی دہلی کی جونیئر ٹیم میں سلیکشن کے لیے رشوت دینے سے انکار کردیا تھا اور رشوت نہ دینے پر انہیں ٹیم میں منتخب نہیں کیا گیا تھا جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میری اپنی آبائی ریاست میں کبھی کبھار کچھ ایسی چیزیں ہوتی ہیں جو درست نہیں ہوتیں اور ایک موقع پر ایک شخص نے مجھے میرٹ پر ٹیم کا حصہ نہیں بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس شخص نے میرے والد کو کہا تھا کہ مجھ میں میرٹ تو ہے لیکن فائنل سلیکشن کے لیے کچھ رشوت دینی پڑے گی۔
کوہلی نے بتایا کہ میرے والد نے میرٹ پر سلیکشن پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو وراٹ کو منتخب کرنا ہے تو میرٹ پر کریں، میں آپ کو کچھ بھی اضافی نہیں دوں گا۔ بھارتی ٹیم کے موجودہ کپتان نے کہا کہ ٹیم میں منتخب نہ ہونے پر وہ بہت روئے اور ان کا دل ٹوٹ گیا لیکن اس واقعے نے انہیں بہت کچھ سکھایا اور وہ سمجھ گئے کہ دنیا اسی طرح چلتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھ گیا تھا کہ اگر مجھے آگے بڑھنا ہے تو مجھے کچھ ایسا کرنا ہوگا جو کوئی اور نہیں کر رہا، اگر مجھے کامیاب بننا ہے تو مجھے سب سے بہترین بننا ہوگا اور یہ سب کچھ مجھے اپنی کوششوں اور سخت محنت سے حاصل کرنا ہوگا۔ کوہلی نے کہا کہ میرے والد نے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ اپنے عمل کے ذریعے مجھے درست راستہ دکھایا، ان چھوٹی چیزوں نے میری زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔
کوہلی کے والد ایک وکیل تھے اور جب مایہ ناز بلے باز 18 برس کے تھے تو وہ انتقال کر گئے تھے۔ تاہم حیران کن امر یہ کہ کھیل کے لیے کوہلی کا اس وقت بھی اس حد تک جنون اور لگاؤ تھا کہ وہ والد کے انتقال والے دن بھی دہلی کے لیے رنجی ٹرافی کا میچ کھیلنے گئے اور میچ میں اپنی ٹیم کو مشکلات سے نکالنے کے بعد والد کی آخری رسومات ادا کیں۔
کوہلی نے کہا کہ والد کی موت کے بعد میں سمجھ گیا تھا کہ مجھے اپنی زندگی میں کچھ کرنا ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوتا اگر میں اپنے والد کو وہ پرسکون ریٹائرڈ زندگی دے سکتا جس کے وہ مستحق تھے اور اکثر اوقات میں ان کے متعلق سوچ کر جذباتی ہوکر خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔