ہاں اپنے برانڈ وی ایس کے پہلے اسٹور کے افتتاح کے لئے آئے وریندرسہواگ نے صحافیوں سے کہا کہ آئی پی ایل میں کارکردگی کے ذریعے ٹیم انڈیا میں دھونی کی واپسی تقریبا ناممکن لگتی ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک بار جب سلیکٹر کسی کھلاڑی کو چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں تو عام طور پر اس کی واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔
'دھونی کے لئے ٹیم میں جگہ بنانا مشکل' سہواگ نے ساتھ ہی کہاکہ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ آئی پی ایل میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر دیتے ہیں تو وہ ٹیم انڈیا میں کس کی جگہ لیں گے۔
ان کی جگہ آئے رشبھ پنت اور اب وكٹ كيپنگ کر رہے لوکیش راہل کو ہٹا کر ان کی جگہ لے پانا تو ان کے لئے اب تقریبا ناممکن ہے۔ خاص کر راہل کی جیسی کارکردگی ہے، اسے دیکھتے ہوئے دھونی کو ان کی جگہ لینے کی بات بھی نہیں سوچی جا سکتی۔
کپتان وراٹ کوہلی کے خراب فارم کے بارے میں پوچھے جانے پر سہواگ نے يواین آئی سے کہا کہ ہر کھلاڑی کے کیریئر میں اچھے اور برے دن آتے ہیں ۔ رکی پونٹنگ اور اسٹیو وا بھی ایسے دور سے گزرے تھے۔ وراٹ کی ٹیکنالوجی یا کھیلنے کے انداز میں انہیں کچھ واپسی نظر نہیں آ رہی۔
البتہ انہوں نے انگلینڈ میں چار ٹیسٹ کی سریز میں اور اب آخری وقت میں نیوزی لینڈ میں کچھ معمولی مظاہرہ کیا۔ اس میں قسمت اور دیگر چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ جب بھارت میں دوبارہ سیریز ہوگی یا آئندہ آئی پی ایل میں وہ یقینی طور پر فارم میں واپس آ جائیں گے۔
'دھونی کے لئے ٹیم میں جگہ بنانا مشکل' سہواگ نے کہا کہ ٹیم انڈیا نے نیوزی لینڈ میں بے شک خراب کارکردگی کی لیکن ہردک پانڈیا جیسے آل راؤنڈر کی ٹیم میں واپسی سے آسٹریلیا میں ہونے والے آئندہ ٹی -20 ورلڈ کپ میں بھارتی ٹیم کو مضبوطی ملے گی۔
انہوں نے تاہم کہا کہ ٹی -20 میچ میں ایک کھلاڑی بھی رخ بدل دیتا ہے تو ان میچوں میں کسی خاص ٹیم کو دعویدار نہیں کہا جا سکتا۔گھریلو کرکٹ خاص طور پر رنجی ٹرافی میں پہلے بڑی ٹیموں ممبئی اور دہلی کی کمزور پوزیشن اور گجرات اور اس بار کی فاتح سوراشٹر وغیرہ کی بہتر کارکردگی کے بارے میں پوچھے جانے پر سہواگ نے کہا کہ چھوٹی ٹیموں کے کم کھلاڑی بھارتی ٹیم میں کھیلتے ہیں لہذا انہیں چوٹ کا خطرہ کم ہوتا ہے اور پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم ایک جیسی رہتی ہے جبکہ دہلی، ممبئی جیسی ٹیموں کے بڑے کھلاڑی اکثر زخمی ہوتے ہیں یا کھیلنے کے لئے دستیاب بھی نہیں ہوتے۔