بھارتی کپتان وراٹ کوہلی نے مثبت انداز میں یہ تاریخ نہیں دہرائی بلکہ انہوں نے اپنی اور ٹیم کی خراب کارکردگی کے معاملہ میں سورو گنگولی کی برابری کی ہے۔ گنگولی کی کپتانی میں بھارت کو 2002میں نیوزی لینڈ دورے میں 0-2سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وراٹ کی کپتانی میں بھارت کو 2020میں نیوزی لینڈ دورہ میں 0-2سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کپتانی اور بلے بازی کے لحاظ سے بھی سورو گنگولی اور وراٹ میں نیوزی لینڈ دوروں میں کافی یکسانیت رہی۔ گنگولی نے 2002میں 5,5, 17اور 2 سمیت مجموعی طورپر 29رن بنائے اور ان کا اوسط 7.25رہا جبکہ وراٹ نے 3,14,2اور 19سمیت مجموعی طورپر 38رن بنائے اور ان کا اوسط 9.50رہا۔ حالانکہ گنگولی اور وراٹ غیرملکی زمین پر بھارت کے سب سے کامیاب کپتان سمجھے جاتے ہیں اور انہیں ان دو دوروں میں اپنے کیریر کی پہلی کلین سویپ کا سامنا کرنا پڑا۔
2002اور 2020میں دونوں مواقع پر نیوزی لینڈ نے دونوں ٹیسٹ میچوں میں ٹاس جیتا اور بھارت کو پہلے بلے بازی کرنے کے لئے کہا۔ گنگولی کی کپتانی میں ٹیم انڈیا کو دس وکٹ او ر چار وکٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ وراٹ کی کپتانی بھارت کو دس وکٹ اور سات وکٹ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
2002میں نیوزی لینڈ کے مارک رچرڈسن 89رنوں کے ساتھ سیریز کے ٹاپ اسکورر رہے تھے جبکہ اس بار کین ولیمسن 89رن کے ساتھ نیوزی لینڈ کے ٹاپ اسکورر رہے ۔ 2002کی سیریز میں بھارت کا فی وکٹ رن اوسط 13.37تھا جبکہ 2020میں 18.05تھا۔
گنگولی نے 2002 میں 7.25کے اوسط سے رن بنائے جبکہ اس بار وراٹ نے 9.50کے اوسط سے رن بنائے۔ بھارت نے 2002اور 2020میں پہلی اننگز میں 161, 99, 165اور 242 کے اسکور بنائے اور اسے ان میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔