اردو

urdu

ETV Bharat / sitara

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

موسیقار مدن موہن کے بارے میں موسیقار او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے 'میں نہیں سمجھتا کہ لتا منگیشکر مدن موہن کے لیے بنی ہوئی ہے یا مدن موہن لتا منگیشکر کیلئے لیکن اب تک نہ تو مدن موہن جیسا موسیقار ہوا اور نہ ہی لتا جیسی گلوکارہ'۔

By

Published : Jul 14, 2020, 12:38 PM IST

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'
'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

ہندی فلموں کے مشہور موسیقار مدن موہن کے ایک نغمہ 'آپ كی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے، دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے' سے موسیقی کے شہنشاہ نوشاد اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے مدن موہن سے اس دھن کے بدلے اپنی موسیقی کا پورا خزانہ لٹا دینے کی خواہش ظاہر کر دی تھی۔

مدن موہن کوہلی کی پیدائش 25 جون 1924 کو ہوئی۔ ان کے والد رائے بہادر چنی لال فلم کاروبار سے منسلک تھے اور بمبئی ٹاکیز اور فلمستان جیسے بڑے فلم اسٹوڈیو میں پارٹنر تھے۔

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

گھر میں فلمی ماحول ہونے کی وجہ سے مدن موہن بھی فلموں میں کام کرکے بڑا نام کمانا چاہتے تھے لیکن اپنے کے والد کے کہنے پر انہوں نے فوج میں بھرتی ہونے کا فیصلہ کرلیا اور دہرہ دون میں ملازمت شروع کر دی۔ کچھ دنوں بعد ان کا تبادلہ دہلی ہو گیا، لیکن کچھ وقت کے بعد ان کا دل فوج کی نوکری سے بھر گیا اور وہ فوج چھوڑ کر لکھنؤ آ گئے اور ریڈیو کے لیے کام کرنے لگے۔

ریڈیو میں ان کی ملاقات موسیقی کی دنیا سے وابستہ استاد فیاض خان، استاد علی اکبر خان، بیگم اختر اور طلعت محمود جیسی جانی مانی شخصیات سے ہوئی جن سے وہ کافی متاثر ہوئے اور ان کا رجحان موسیقی کی جانب ہو گیا۔ اپنے خواب کو نئی شکل دینے کے لئے مدن موہن لکھنؤ سے ممبئی آ گئے۔

مدن موہن کا اردو کا لہجہ بہت ہی اچھا تھا۔ اردو لکھتے بھی اچھی تھے ۔بہت اچھی اردو میں گفتگو بھی کرتے تھے ۔ ممبئی آنے کے بعد مدن موہن کی ملاقات ایس ڈی برمن، شیام سندر اور سی رامچندر جیسے مشہور موسیقاروں سے ہوئی اور وہ ان کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے ۔

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

سنہ 1950 میں ریلیز فلم 'آنکھیں' کے ذریعے بطور موسیقار وہ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس فلم کے بعد لتا منگیشکر، مدن موہن کی ہر دلعزیز گلوکارہ بن گئیں اور وہ اپنی ہر فلم کے لئے انہیں ہی گانے کی پیشکش کیا کرتے تھے۔ لتا بھی مدن موہن کی موسیقی سے کافی متاثر تھیں۔ انہوں نے مدن موہن کو 'غزلوں کا شہزادہ' کا لقب دیا تھا۔

موسیقار او پی نیر اکثر کہا کرتے تھے 'میں نہیں سمجھتا کہ لتا منگیشکر مدن موہن کے لیے بنی ہوئی ہے یا مدن موہن لتا منگیشکر کیلئے لیکن اب تک نہ تو مدن موہن جیسا موسیقار ہوا اور نہ ہی لتا جیسی گلوکارہ'۔

مدن موہن کی موسیقی ہدایت میں آشا بھونسلے نے فلم میرا سایہ کیلئے 'جھمکا گرا رے بریلی کے بازار میں' نغمہ گایا تھا جسے سن کر سامعین آج بھی جھوم اٹھتے ہیں۔

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

آشا بھونسلے کو ان سے اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ 'وہ اپنی ہر فلم کے لئے لتا دیدی کو ہی کیوں لیتے ہیں' اس پر مدن موہن کہتے جب تک لتا زندہ ہیں ان کی فلموں کے نغمے وہی گائیں گی'۔

پچاس کی دہائی میں فلم انڈسٹری میں یہ بات زوروں پر تھی کہ مدن موہن صرف خواتین گلوکاراؤں کیلئے ہی موسیقی دے سکتے ہیں وہ بھی خاص طور پر لتا منگیشکر کیلئے ،لیکن 1957 میں آئی فلم 'دیکھ کبیرہ رویا' میں گلوکار منا ڈے کے لئے 'کون آیا میرے من کے دوارے' جیسا دل کو چھو لینے والی موسیقی دے کر انہوں نے اپنے بارے میں اس تاثر کو غلط ثابت کردیا۔

'جس کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے'

سنہ 1965 میں فلم 'حقیقت' میں محمد رفیع کی آواز میں مدن موہن کی موسیقی سے مزئین یہ نغمہ 'کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو! اب تمہارے حوالے وطن ساتھیوں' آج بھی سامعین میں حب الوطنی کے جذبے کو بلند کر دیتا ہے۔ آنکھوں کو نم کر دینے والی ایسی موسیقی مدن موہن ہی دے سکتے تھے ۔ بالی ووڈ کو مدھر دھنیں دینے والے 'مدن موہن کو فلم 'ان پڑھ، وہ کون تھی، موسم اور ویر زارا" کیلئے چار مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا۔ سنہ 1970 میں آئی فلم 'دستک' کے لئے مدن موہن بہترین موسیقار کے قومی ایوارڈ سے نوازے گئے۔

موسیقار مدن موہن سحر انگیز موسیقار تھے ۔ فلمی غزل بنانے میں انہیں ملکہ حاصل تھا اور ایسی ایسی فلمی غزلیں بنائیں کہ دوسرے میوزک ڈائیرکٹر اس پر رشک کرتے تھے۔ مدن موہن کے بیٹے سنجیو کوہلی نے اپنے والد کی بغیر استعمال کی ہوئی 30 دھنیں یش چوپڑا کو سنائیں جن میں آٹھ کا استعمال انہوں نے اپنی فلم 'ویر زارہ' کے لئے کیا ہے ۔ اس فلم کے نغمے بھی سامعین کے درمیان کافی مقبول ہوئے اور جس کے لئے انہیں بعد از مرگ "آئیفا ایوارڈ" سے بھی نوازا گیا۔

انہوں نے اپنے طویل فلمی کیریئر میں تقریباً 100 فلموں کے لئے موسیقی دی۔ اپنی موسیقی سے سامعین کے دل میں خاص جگہ بنا لینے والا یہ موسیقار 14 جولائی 1975 کو اس دنیا سے الوداع کہہ گیا۔ ان کے انتقال کے بعد 1975 میں ہی ان کی موسم اور لیلی مجنوں جیسی فلمیں جلوہ گر ہوئیں جن کی موسیقی کا جادو آج بھی سامعین کو مسحور کرتا ہے ۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details