یہی فضا تھی، یہی رُت، یہی زمانہ تھا
یہیں سے ہم نے محبت کی ابتدا کی تھی
دھڑکتے دل سے، لرزتی ہوئی نگاہوں سے
حضورِ غیب میں ننھی سی التجا کی تھی
کہ آرزو کے کنول کِھل کے پھول ہو جائیں
دل و نظر کی دعائیں قبول ہو جائیں
اردو زبان و ادب کے معروف شاعر ساحر لدھیانوی 8 مارچ سنہ 1921 کو ریاست پنجاب کے شہر لدھیانہ میں پیدا ہوئے جبکہ اُن کا انتقال 25 اکتوبر سنہ 1980 کو محض 59 برس کی عمر میں ہوگیا۔
آج ساحر لدھیانوی کی یوم پیدائش ہے، اس موقع پر آئیے اس عظیم شاعر کو یاد کرتے ہیں اور خود کو ان کی شاعری سے محظوظ کرتے ہیں۔
ساحر کا اصل نام عبدالحئی تھا، سنہ 1938 میں میٹرک کرنے کے بعد اُنہوں نے گورنمنٹ کالج لدھیانہ میں داخلہ لے لیا، اُسی زمانے میں اُنہوں نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا۔
اپنے زمانہ طالب علمی ہی میں اُنہوں نے نظم 'تاج محل' لکھ کر کی پوری نسل کو چونکا دیا، اِس نظم میں ساحر نے شاہ جہاں کی عظمت کے گیت گانے کی بجائے اُن سینکڑوں گمنام کاریگروں اور مزدوروں کے حق کی بات کی تھی، جنہوں نے اپنی محنت اور قابلیت سے اپنے شہنشاہ کے خواب کو حقیقت کا روپ دیا تھا، ساحر کی اس نظم کا آخری حصہ کچھ یوں ہے۔
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل
یہ منقش درو دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
تقسیم ہند سے پہلے کے برسوں میں اپنی انگریز دشمنی کی بیناد پر ساحر کو لدھیانہ چھوڑ کر لاہور جانا پڑا، جہاں اُنہوں نے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔
بتایا جاتا ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتلِ عام اور مسلمان آبادی کے انخلا کا سلسلہ شروع ہوا، تو ساحر کی والدہ لدھیانہ ہی میں تھیں، مسلمان مہاجرین کے ساتھ وہ بھی لاہور پہنچ گئیں۔
پاکستان کے تاریخی شہر لاہور میں رہتے ہوئے اُن کے فن کو اور جِلا ملی، وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہو گئے اور اُن کا نام فیض احمد فیض، علی سردار جعفری، کیفی اور مجاز جیسے معروف شعرا کے ساتھ لیا جانے لگا۔
گلستانِ ساحر، ساحر لدھیانوی کے آبائی شہر لدھیانہ میں ایک خوبصورت پارک کو اُن سے موسوم کیا گیا ہے۔
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسمان کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
یہ منظر کون سا منظر ہے، پہچانا نہیں جاتا
سیہ خانوں سے کچھ پوچھو شبستانوں پہ کیا گزری