نصیر الدین شاہ کی پیدائش 20 جولائی سنہ 1950 کو اتر پردیش کے ضلع بارہ بنکی میں ہوئی۔
نصیر الدین شاہ نے ابتدائی تعلیم اجمیر اور نینی تال سے مکمل کی۔ اس کے بعد انہوں نے گریجویشن کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کیا۔
سنہ 1971 میں اداکار بننے کا خواب لیے انہوں نے دہلی کے نیشنل اسکول آف ڈرامہ میں داخلہ لیا جبکہ سنہ 1975 میں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز و ہدایتکار شیام بینگل سے ہوئی۔
شیام بینگل ان دنوں فلم 'نشانت' بنانے کی تیاری کر رہے تھے اور نصیر الدین شاہ سے ملاقات کے دوران انہوں نے نصیر الدین شاہ کو ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھا اور اپنی فلم میں کام کرنے کا موقع دیا۔
سال 1976 نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کا اہم سال ثابت ہوا اور اسی سال ان کی 'بھومیکا' اور 'منتھن' جیسی کامیاب فلمیں بھی ریلیز ہوئیں۔ دودھ انقلاب پر بنی فلم 'منتھن' میں ناظرین کو ان کی اداکاری کے نئے رنگ دیکھنے کو ملے۔ اس فلم کی تیاری کے لیے گجرات کے تقریباً پانچ لاکھ کسانوں نے اپنی فی دن ملنے والی اجرت میں سے دو دو روپے فلم سازوں کو دیئے تھے۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی۔
سال 1977 میں اپنے دوست بینجامن گیلانی اور ٹام الٹر کے ساتھ مل کر نصیر الدین شاہ نے موٹیلے پروڈکشن نامی ایک تھیٹر گروپ قائم کیا جس کے بینر تلے سیموئل بیکٹ کی ہدایت میں پہلا ڈرامہ 'ویٹنگ فار گوڈوٹ' پرتھوی تھیٹر میں پیش کیا گیا۔
سنہ 1979 میں ریلیز ہونے فلم 'اسپرش' میں ناظرین کو نصیر الدین شاہ کی اداکاری کا ایک نیا انداز دیکھنے کو ملا۔ اس فلم میں اندھے شخص کا کردار ادا کرنا کسی بھی اداکار کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا، چہرے کے تاثرات سے ناظرین کو سب کچھ بتا دینا نصیر الدین شاہ کی اداکاری کی صلاحیت کی ایسی مثال تھی جسے شاید ہی کوئی اداکار دہرا پائے۔ اس فلم میں بہترین اور لاجواب اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکار کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
اس کے علاوہ سال 1980 میں آئی فلم 'آكروش' نصیرالدین شاہ کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔گووند نہلانی کی ہدایتکاری میں بنی اس فلم میں نصیر الدین ایک ایسے وکیل کے کردار میں نظر آئے جو سماج اور سیاست کی پرواہ کئے بغیر ایک بے قصور شخص کو پھانسی کے پھندے سے بچانا چاہتا ہے اگرچہ اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سنہ 1983 میں نصیر الدین شاہ کو سائی پرانجپے کی فلم 'کتھا' میں کام کرنے کا موقع ملا، اس فلم کی کہانی میں کچھوے اور خرگوش کی دوڑ کو علامتی انداز میں دکھایا گیا تھا۔ فلم میں فاروق شیخ نے خرگوش کا کردار اداکیا تھا جبکہ نصیر الدین شاہ کچھوے کے کردار میں تھے۔
اُسی سال نصیر الدین شاہ کے فلمی کریئر کی ایک اور سُپر ہٹ فلم 'جانے بھی دو یارو' ریلیز ہوئی۔ کندن شاہ کی ہدایت میں بنی اس فلم میں نصیر الدین کی اداکاری کا نیا رنگ دیکھنے کو ملا۔ اس فلم سے پہلے ان کے بارے میں یہ خیال تھا کہ وہ صرف سنجیدہ کردار ادا کرنے کے ہی قابل ہیں لیکن اس فلم میں انہوں نے اپنی زبردست مزاحیہ اداکاری سے شائقین کو مسحور کر دیا۔