بالی وڈ کی مشہور اداکارہ آشا پاریکھ نے بہت سی سپر ہٹ فلموں میں کام کیا ہے لیکن اپنے کیریئر کے ابتدائی دور میں انہیں بھی وہ دن دیکھنا پڑا جب ایک پروڈیوسر ڈائریکٹر نے انہیں یہاں تک کہہ دیا کہ ان میں اسٹار والی اپیل نہیں ہے۔
دو (2) اکتوبر 1942 کو ممبئی میں ایک درمیانے طبقے کے گجراتی گھرانے میں پیدا ہونے والی آشا پاریکھ نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بطور چائلڈ آرٹسٹ 1952 میں ریلیز ہونے والی فلم ’آسمان‘ سے کیا تھا۔ آشا پاریکھ نے جب فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تھا تب پروڈیوسر ہدایتکار وجے بھٹ نے انہیں اپنی فلم ’گونج اٹھی شہنائی‘ میں کام دینے سے انکار کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ان میں اسٹار اپیل نہیں ہے اور ان کی جگہ نئی اداکارہ امیتا کو اپنی فلم میں لے لیا۔
فلم انڈسٹری کی جُبلی گرل تھیں آشا پاریکھ اسی دوران پروڈیوسر و ہدایت کار ومل رائے ایک پروگرام کے دوران آشا پاریکھ کا رقص دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور انہیں اپنی فلم ’باپ بیٹی‘ میں کام کرنے کی پیش کش کی۔
سنہ 1954 میں منظرعام پر آئی یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔ اسی درمیان آشا پاریکھ نے کچھ فلموں میں معمولی کردار ادا کئے لیکن ان کی ناکامی سے انہیں گہرا صدمہ پہنچا اورانہوں نے اپنی توجہ ایک بار پھر اپنی تعلیم پر مرکوز کردی۔
سنہ 1958 میں جب پروڈیوسر، ہدایت کار وجے بھٹ نے آشا پاریکھ کو اپنی فلم ’گونج اٹھی شہنائی‘ میں کام دینے سے انکار کردیا تھا اس کے اگلے ہی دن ان کی ملاقات فلمساز ناصر حسین سے ہوئی جنہوں نے ان کی صلاحیتوں کو پہچان کر اپنی فلم ’دل دے کے دیکھو‘ میں کام کرنے کی پیش کش کردی۔
سنہ 1959 میں ریلیز ہونے والی فلم ’دل دے کے دیکھو‘ کی کامیابی کے بعد آشا پاریکھ فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت بنانے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئیں اور انہیں 1960 میں ایک بار پھر ڈائریکٹر ناصر حسین کی فلم’جب پیار کسی سے ہوتا ہے‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ فلم کی کامیابی نے آشا پاریکھ کو بطور اسٹار قائم کردیا۔
ان فلموں کی کامیابی کے بعد وہ ناصر حسین کی محبوب اداکارہ بن گئیں اور ناصر حسین نے انہیں اپنی بہت سی فلموں میں کام کرنے کا موقع دیا۔ ان میں ’ پھر وہی دل لا یا ہوں، تیسری منزل ، بہارو ں کے سپنے، پیار کا موسم اور کارواں جیسی سپر ہٹ فلمیں شامل ہیں۔
سنہ 1966 میں ریلیز فلم ’تیسری منزل‘ آشا پاریکھ کے کیرئیر کی سپرہٹ فلم ثابت ہوئی ۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد ان کے کیریئر کا ایسا سنہرا دور بھی آیا جب ان کی ہر فلم سلور جوبلی منانے لگی۔ یہ سلسلہ طویل عرصے تک چلتا رہا اور وہ فلم انڈسٹری میں ’جُبلی گرل‘ کے نام سے مشہور ہوگئیں۔
سنہ 1970 میں فلمساز شکتی سامنت کی فلم ’کٹی پتنگ‘ آشا پاریکھ کی ایک اور سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اس فلم میں ان کا کردار کافی چیلنجنگ تھا لیکن انہوں نے اپنی موثر اداکاری سے اسے زندہ و جاوید کردیا۔ اس فلم میں اپنی بااثر اداکاری کے لیے انہیں بہترین اداکارہ کے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔
نوے کی دہائی میں آشا پاریکھ نے فلموں میں کام کرنا کافی کم کر دیا۔ اس دوران انہوں نے چھوٹے پردے کی طرف رخ کیا اور گجراتی سیریل ’جیوتی‘ کی ہدایت کاری کی۔ اسی درمیان انہوں نے اپنی پروڈکشن کمپنی ’آکرتی‘ قائم کی جس بینر تلے انہوں نے پلاش کے پھول، باجے پائل، کورا کاغذ اور دال میں کالا جیسے مقبول سیریلز بنائے۔
آشا پاریکھ نے ہندی فلموں کے علاوہ گجراتی، پنجابی اور کنڑ فلموں میں بھی اپنے اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں۔ سنہ 1963 میں ریلیز گجراتی فلم ’اکھنڈسو بھاگيہ وتي‘ ان کے کیریئر کی اہم فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ آشا پاریکھ بھارتیہ سینسر بورڈ کی صدر بھی رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے سنے آرٹسٹ ایسوسی ایشن کی صدر کے طور پر 1994 سے 2000 تک کام کیا ہے۔
آشا پاریکھ کو 1992 میں ان کی قابل ذکر شراکت کے پیش نظر پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ انہوں نے تقریبا 85 فلموں میں اداکاری کی۔
ان کی کچھ قابل ذکر فلموں میں ’ ہم ہندوستانی، گھونگھٹ، گھرانہ، بھروسہ، ضدی، میرے صنم، لو ان ٹوکیو، دو بدن، آئے دن بہار کے، اپکار، شکار، کنیا دان، ساجن، چراغ، آن ملو سجنا، میرا گاؤں میرا دیش، کاررواں، بن پھیرے ہم تیرے، سو دن ساس کے، بلندی، کالیا، بٹوارہ، آندولن وغیرہ شامل ہیں۔