اردو

urdu

ETV Bharat / science-and-technology

First Pic Of Earliest Galaxies: کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسداں

امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز قبل ایک ویب تصویر شیئر کی تھی جس میں کائنات کا اب تک کا سب سے گہرا نظارہ دیکھا گیا تھا۔ ناسا کی جانب سے جیمس ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے لی گئی یہ کائنات کی پہلی رنگین تصویر ہے۔ اس کامیابی کے پیچھے کئی خواتین سائنسدانوں نے کام کیا ہے۔ اس کارکردگی میں بھارتی سائنسدانوں کا بھی اہم کردار ہے۔ James Webb Space Telescope

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان
کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

By

Published : Jul 14, 2022, 3:26 PM IST

نئی دہلی: اپنی والدہ، دادی اور سسر سے متاثر ہو کر سائنس سے محبت کرنے والی ڈاکٹر ہاشمہ حسن نے خلائی سائنسداں کے طور پر ایک معجزہ حاصل کیا ہے۔ ڈاکٹر ہاشمہ حسن ابھی جیمس ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے لیے ڈپٹی پروجیکٹ سائنٹسٹ کے طور پر کام کررہی ہیں۔

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

ڈاکٹر ہاشمہ حسن نے اپنا تجربہ لوگوں سے شیئر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ میری عمر محض پانچ سال تھی۔ دادی گھر کے سبھی فرد کو ایک دن صحن میں لے گئیں وہ سب بے صبری سے کسی چیز کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ سب کچھ روس کی طرف سے بھیجے گئے سپوتنک سیٹلائٹ کو آسمان میں دیکھنے کے لیے کیا جا رہا تھا۔ ہمارے گھر والوں کو سائنس سے بہت لگاؤ تھا۔ تب میری عمر پانچ سال تھی۔ اس وقت بھی میں اس بات پر نظر رکھتی تھی کہ یہ کہاں تک جاتا ہے، روس کا یہ پروجیکٹ کامیاب ہوا یا نہیں۔

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

میں ان تمام خبروں کو پڑھتی تھی۔ بعد ازاں جب انسان نے چاند پر پہلا قدم رکھا تو وہ لمحہ کافی دیر تک میرے ذہن میں رہا اور ناسا میں شامل ہونا میرا خواب بن گیا۔ میرا آبائی شہر اترپردیش کا لکھنؤ ہے۔ میرے سسر ڈاکٹر حسیز ظہیر نے CSIR کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر کام کیا ہے۔ ساس نجم ظہیر ماہر حیاتیات ہیں جس کا مجھ پر گہرا اثر ہے۔


ہاشمہ کے مطابق ان کی ماں اور دادی کا اصرار تھا کہ انہیں سائنسدان بننا چاہئے اور مجھے سائنس میں بھی دلچسپی تھی۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نیوکلیئر فزکس میں ڈگری حاصل کی۔ بعد میں انہوں نے ممبئی کے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف فنڈامینٹل ریسرچ میں تحقیق کیا۔ بھابھا اٹامک ریسرچ سینٹر میں کام کرنے کا تجربہ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ تھا۔ اس کے بعد 1994 میں ناسا میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے نظریاتی نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

ہاشمہ نے NASA کی طرف سے شروع کیے گئے ایک درجن سے زیادہ باوقار منصوبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ہبل دوربین میں نقائص کا پتہ لگایا اور درست کیا۔ ان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے امریکی حکومت نے انہیں ایسٹرو فزکس ایجوکیشن کمیونیکیشن لیڈ کے طور پر مقرر کیا۔ وہ جیمس ویب اسپیس ٹیلی سکوپ اور پوڈ کاسٹ کی باضابطہ ترجمان بھی رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:

میڈ انفراریڈ انسٹومینٹ جیمس ویب ٹیلی سکوپ کے چار بڑے نظاموں میں سے ایک کلیانی ہیں جن کو جیمس ویب ٹیلی سکوپ پروجیکٹ مینیجر کے طور پر ان کی موثر کارکردگی کو خوب سراہا گیا۔ کلیانی سکتمے نے بارہ سال تک ٹیلی سکوپ کے انفراریڈ ڈیٹیکٹروں کو ڈیزائن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ ممبئی کی رہنے والی ہیں۔حالانکہ ان کی ماں اور والد ریاضی کے پروفیسر تھے، لیکن انہوں نے فزکس کا مطالعہ کیا۔ آئی آئی ٹی ممبئی سے بی ٹیک کیا اور کیلیفورنیا یونیورسٹی سے طبیعیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

بعد ازاں انہوں نے ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کا کام کیا۔ کلیانی کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہوئے انہیں 2010 میں میری پروجیکٹ کی ذمہ داری دی گئی۔ خلائی جہاز کی سطحوں کو زیادہ گرم ہونے سے روکنے میں ان کی تحقیق نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کے لیے انھیں 2012 میں ناسا سے یوروپئے ایجنسی جیمس ویب اسپیس ٹیلی سکوپ ایوارڈ ملا۔

اسپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کی ماہر فلکیات نیمشا کماری جیمس ویب دوربین کی کارکردگی کی نگرانی کرتی ہیں۔ وہ کہکشاؤں پر تحقیق سے جتنا لطف اندوز ہوتی ہیں وہ اتنی ہی سائنس سے محروم لڑکیوں کو سائنس پڑھانے میں دلچسپی لیتی ہیں۔ نیمشا کہتی ہیں کہ یہ دلچسپی ان کی اپنی خود کی زندگی سے شروع ہوئی تھی۔ نیمشا اس مشہور دوربین کی ڈیزائن اور آپریشن ٹیم میں واحد ایشیائی لڑکی ہیں۔ لیکن ڈگری حاصل کرنے تک اس نے دوربین نہیں دیکھی تھی۔

وہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت پسماندہ علاقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں کتابوں کی دکانیں بہت کم ہیں۔ ان کے پاس اب بھی ٹرانسپورٹ کی مناسب سہولیات نہیں ہیں۔ ان کا فلکیات دان بننے کا بچپن کا خواب تھا، لیکن ان کے اسکول میں لائبریری تک نہیں تھی۔

مزید پڑھیں:

وہ بتاتی ہیں کہ سات سال تک پڑھنے کے لیے کتابیں نہ ہونے کا درد نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا۔ میں نے تندہی سے تعلیم حاصل کی اور فلکی طبیعیات میں ماسٹرز کرنے فرانس گئی۔ ہماری کلاس کے 30 لوگوں میں، میں اکلوتی لڑکی تھی جو انگلینڈ میں کہکشاؤں کی تشکیل پر پی ایچ ڈی کی۔ میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے بعد ہی یہاں تک پہنچ سکی ہوں۔

کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہیں خاتون سائنسدان

2020 میں انہوں نے جیمس ویب کی ٹیم میں ایسوسی ایشن آف یونیورسٹیز فار ریسرچ ان آسٹرونومی (آورا) ماہر فلکیات کے طور پر شمولیت اختیار کی اور اس دوربین کے لیے کام کرتے ہوئے وہ ستاروں کی پیدائش اور کہکشاؤں کی تشکیل پر مختلف تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ممکن ہوتا ہے وہ بہار جیسی جگہوں پر کلاس لیتی ہیں تاکہ لڑکیوں کی سائنس میں دلچسپی پیدا کی جا سکے۔ درحقیقت لندن جیسی جگہوں پر بھی سائنس میں مہارت حاصل کرنے والی لڑکیاں بہت کم ہیں۔ اسی لیے وہاں بیداری کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details