ڈونالڈ ٹرمپ نے ریپبلیکن نیشنل کنونشن کی اختتامی شب کو صدارتی عہدے کے لئے دوبارہ اپنی نامزدگی کو رسمی طور قبول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا، ’’جب ہم نے اقتدار سنبھالا، تو ہم نے ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ کو ختم کرنے کی پچھلی سرکار کے طریقہ کار بدلتے ہوئے واشنگٹن کی انتظامیہ کو ہلا دیا۔ اس کے بعد میں کی سٹون ایکس ایل (کینیڈا سے امریکا کے جنوبی علاقوں میں واقع ریفائنریوں کے لئے پیٹرول کی ترسیلی لائینیں بچھانے کا منصوبے) اور ڈیکوٹا رسائی پائپ لائن (ڈیکوٹا پیٹرول لائن کی تعمیر) کو منظوری دے دی۔ اسکے بعد میں نے مالی لحاظ سے نقصان دہ پیرس کلائمیٹ ایکارڈ (انسداد آلودگی سے متعلق پیرس میں ہوئے عالمی معاہدہ) کو ختم کردیا اور اس طرح سے پہلی بار توانائی کے شعبے میں امریکا کی خود مختاری کو بچالیا۔‘‘
ٹرمپ نے اپنی اس 71 منٹ کی تقریر میں اپنے دور اقتدار میں اپنائی گئی ’امریکا فرسٹ پالیسی‘ کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید کہا، ’’ میں خوفناک اور یکطرفہ ایران نیو کلیئر ڈیل سے دسبردار ہوگیا۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ وائٹ ہاوس میں اقتدار کی اس دوڑ کی وجہ سے دُنیا اور عالمی اداروں کی کونسی چیزیں داو پر لگی ہوئی ہیں؟ کیا ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی صورت میں امریکا ملکی مفادات کو ترجیح دینے کی پالیسی کو جاری رکھے گا اور کیا وہ عالمی اداروں کی قیادت کا اپنا رول چھوڑ دے گا۔
ان سوالات پر سینئر صحافی سمیتا شرما نے ’’بیٹل گراونڈ امریکا 2020ء‘‘ ایک اور قسط میں کئی شخصیات کے ساتھ بات چیت کی ہے۔اس بات چیت میں اقوام متحدہ میں مستقل نمائندے کی حیثیت سے اپنی خدمات دے چکے اشوک مکھرجی نے کہا، ’’دُنیا کی قیادت کا کردار، جو امریکا جنوری 1942ء سے ادا کرتا آیا ہے، داو پر لگا ہوا ہے۔ واشنگٹن کانفرنس کے انعقاد سے لیکر اب تک امریکی قیادت میں دُنیا نے ایک لمبا سفر طے کیا ہے، جس کے دوران ادارہ اقوام متحدہ بھی تشکیل پایا ہے۔ گزشتہ پانچ چھ سال کے دوران امریکا کی قیادت جو اسے گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران حاصل ہوئی تھی، کو نقصان پہنچا ہے۔ آنے والے انتخابات کے نتائج کے زبردست اثرات اس امریکی قیادت کے اس کلیدی مسئلہ پر مرتب ہونگے۔‘‘
ریٹائرڈ سفارتکار نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اداروں کی قیادت چھوڑنے کی وجہ سے امریکا کا رتبہ کم ہوگیا ہے۔ سال 2006ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہیومن رائٹس کونسل (انسانی حقوق کونسل) قائم کی۔ اُس وقت جان بولٹن امریکی اقوام متحدہ میں امریکی سفیر تھے۔ اُنہوں نے انسانی حقوق کونسل کے اس ادارے کو قائم کرنے مخالفت کی۔ اُن کے ہمراہ دیگر تین ممالک نے بھی اس کی مخالفت کی۔ لیکن جنرل اسمبلی میں 170 ممالک نے انسانی حقوق کونسل کے قیام کی حمایت کی اور کونسل تشکیل دیدیا گیا۔ اس کے بعد امریکا تین سال تک اس ادارے سے باہر رہا۔ اس نے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور ان تین سال کے دوران کونسل نے قواعد و ضوابط مرتب کئے۔ ان میں اسرائیل کے ساتھ نمٹنے سے متعلق قواعد و ضوابط بھی شامل ہیں۔ اگر ہم تھوڑا پیچھے کی طرف جائیں تو یاد کیا جاسکتا ہے کہ امریکی سفارتکار نیلی ہیلے نے ان قواعد و ضوابط کو ہدف تنقید بنایا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ اس کمرے میں موجود ہی نہیں ہیں، جس میں بیٹھ کر یہ قواعد و ضوابط مرتب جارہے ہوں، تو آپ کمرے سے باہر اس کا تدارک بھی نہیں کرسکتے ہیں۔‘‘
ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکا نے پیرس کلائمٹ ایکٹ سے لیکر ایران نیو کلیر ڈیل تک کئی معاہدوں سے دسبردار ہوگیا ہے اور اس نے اقوام متحدہ کی کئی ایجنسیوں اور تجارت و ماحولیات سے متعلق کئی کثیر الجہتی معاہدوں کی فنڈنگ کم کردی۔ اسکے علاوہ امریکا نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ تجارت) جسیے کئی اداروں کو کمزور کیا۔ سوال یہ کہ اگر جو بیدن نے نومبر کی انتخابی دوڈ میں فتح پائی تو کیا اس کی انتظامیہ ٹرمپ حکومت کے ان فیصلوں کو بدل دے گی اور عالمی کثیر الجہتی نظام کو دوبارہ مضبوط کرے گی؟ کیا بیدن انتظامیہ اب جبکہ ایران، چین اور روس کے درمیان سٹریٹجیک تعاون بڑھ گیا ہے، دوبارہ ایران نیو کلیئر معاہدہ کرے گی؟
ان سوالات کے جواب میں اقوام متحدہ کے سابق ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈاکٹر راجیش پی راجاگوپالن کہتے ہیں، ’’ اوبامہ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ وہ معاہدہ کیا تھا، جو پوری طرح ایران کے حق میں تھا۔ یہ بات سب کو پسند نہیں آئے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایران نے اس ڈیل کے حوالے اپنے حق میں سودے بازی میں کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس معاہدے میں ایران نے انسپکشنز وغیرہ کا عمل بھی بند کروادیا تھا۔اس معاہدے کی ہر شق کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایران نے اپنے حق میں سودے بازی کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔‘‘ ڈاکٹر راجا گوپالن جو اوبزرور ریسرچ فاونڈیشن (او آر ایف) میں نیو کلیئر اینڈ سپیس انیشیٹیو کے سربراہ بھی ہیں، کا ماننا ہے کہ بین الاقوامی پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایران اپنے نیو کلیر پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وجہ سے بیدن انتظامیہ کے لئے نیو کلیئر معاہدے پر سر نو غور کرنا بہت مشکل ہوگا اور وہ بھی اب ایک ایسے وقت میں جب چین کی تہران کے ساتھ قربت بڑھ گئی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ یہ صورتحال بیدن کی ٹیم کےلئے حساس ہوگی کیونکہ اسے یہ بھی ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ چین کے حوالے سے زیادہ سخت موقف کا حامل ہے۔ اسے یہ بتانا پڑے گا کہ وہ چین سے جڑے مسائل اور چیلنجز کا کیسے مقابلہ کریں گے۔ کیونکہ چین سے جڑا مسئلہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بڑا ہوگیا ہے۔ چین اقوام متحدہ سے جڑے کئی اداروں کی قیادت کررہا ہے۔ امریکا نے چین کےلئے کافی حد سٹریٹجیک سپیس خالی چھوڑ دی ہے۔ بیدن کےلئے اب یہ ایک مسئلہ ہوگا کہ وہ ایران اور چین کے درمیان طاقت کے تال میل یا پھر ایران، چین اور روس کے اتحاد سے کیسے نمٹنے۔ ان تینوں ممالک گزشتہ سال کے آخر میں مشترکہ بحری مشقیں بھی کی ہیں۔‘‘