نئی دہلی: نئی دہلی میں افغان سفارتخانہ کو مستقل طور پر بند کرنے کے اعلان نے افغانستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کے باہمی تعلقات یہیں ختم ہو جائیں گے؟ یا بھارت ہمیشہ کی طرح غیر جانبدارانہ موقف اپنائے گا اور احتیاط سے آگے بڑھے گا؟ یا اسے بھارت افغان تعلقات کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اِن ہی سب سوالوں کو جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت نے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی۔ امریکہ میں سابق بھارتی سفیر میرا شنکر نے کہا کہ "دہلی میں افغان سفارت خانے کا بند ہونا، افغانستان کی اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ سفارت خانہ طالبان کے قبضے سے پہلے ہی چل رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر بین الاقوامی برادری کی طرح بھارت نے بھی طالبان کی حکومت کو خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک روا رکھے جانے کے خدشات کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا۔ لیکن افغان عوام کے ساتھ روایتی طور پر ہمارے تعلقات اچھے رہے ہیں اور ہم نے انسانی بنیادوں پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی افغانستان کو خوراک کی امداد فراہم کی ہے اور ہم صورتحال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں"۔
ایسا ہی ایک قدم اس سال 30 ستمبر کو دیکھنے میں آیا تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں دہلی میں افغانستان کا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ایک رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ افغان مشن نے بھارت کی وزارت خارجہ کو خط لکھ کر بندش کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ جس کے بعد وزارت خارجہ نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
جب سے طالبان کے ہاتھوں میں کابل کا کنٹرول ہے تب سے دہلی میں مشن کے طریقہ کار زیر بحث ہیں، جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا مشن ہے جس کی کوئی ریاست نہیں ہے کیونکہ یہ کابل کے موجودہ حکمرانوں یعنی طالبان کی نمائندگی نہیں کرتا ہے اور جن کے ساتھ بھارت کے کوئی سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ اس سے بھارت میں موجود افغانوں میں انتشار کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
اس موضوع پر سابق سفیر انل تریگنایت کا کہنا ہے کہ " طالبان حکومت سے پہلے کے افغان سفیر کو طالبان نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ دہلی سے تیسرے ملک چلے گئے تھے اور باقی ماندہ بہت سے سفارت کار بھی چلے گئے تھے، چنانچہ افغان سفارت خانہ خالی اور بند ہوگیا۔ تاہم بہت سے دوسرے ممالک کی طرح ہم نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اپنے شہریوں کی خدمت کے لیے مشن کو برقرار رکھا ہے"۔
تریگنیت نے مزید کہا کہ "کابل میں بھارت کا تکنیکی سطح کا مشن ہے۔ ایسی صورت حال پہلے بھی ہوچکی ہے۔ اس سے قبل جب دوحہ معاہدے کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا اور یو این ایس سی کی قرارداد منظور ہوئی تو بھارت یو این ایس سی میں روٹیشنل چیئر پر تھا تو طالبان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنی مختلف ذمہ داریاں پوری کریں گے جو آج بڑی حد تک برقرار ہے"۔