اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

افغان سفارتخانہ بند ہونے کے بعد کیا دہلی کابل کے تعلقات برقرار رہیں گے؟

افغانستان نے نئی دہلی میں اپنا سفارت خانہ مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں سابق بھارتی سفیر میرا شنکر کا خیال ہے کہ دہلی میں افغان سفارت خانے کی بندش افغانستان کے اندرونی انتشار کی عکاسی کرتی ہے۔ ای ٹی وی بھارت کی سینئر نامہ نگار چندرکلا چودھری کی رپورٹ۔ India Afghanistan Relations

Etv Bharat
Etv Bharat

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Nov 24, 2023, 6:04 PM IST

نئی دہلی: نئی دہلی میں افغان سفارتخانہ کو مستقل طور پر بند کرنے کے اعلان نے افغانستان کے حوالے سے بھارت کی پالیسی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور افغانستان کے باہمی تعلقات یہیں ختم ہو جائیں گے؟ یا بھارت ہمیشہ کی طرح غیر جانبدارانہ موقف اپنائے گا اور احتیاط سے آگے بڑھے گا؟ یا اسے بھارت افغان تعلقات کے لیے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔

اِن ہی سب سوالوں کو جاننے کے لیے ای ٹی وی بھارت نے سیاسی تجزیہ کاروں سے بات کی۔ امریکہ میں سابق بھارتی سفیر میرا شنکر نے کہا کہ "دہلی میں افغان سفارت خانے کا بند ہونا، افغانستان کی اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ یہ سفارت خانہ طالبان کے قبضے سے پہلے ہی چل رہا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر بین الاقوامی برادری کی طرح بھارت نے بھی طالبان کی حکومت کو خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک روا رکھے جانے کے خدشات کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا۔ لیکن افغان عوام کے ساتھ روایتی طور پر ہمارے تعلقات اچھے رہے ہیں اور ہم نے انسانی بنیادوں پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی افغانستان کو خوراک کی امداد فراہم کی ہے اور ہم صورتحال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں"۔

ایسا ہی ایک قدم اس سال 30 ستمبر کو دیکھنے میں آیا تھا، جس میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں دہلی میں افغانستان کا سفارت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد ایک رپورٹ سامنے آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ افغان مشن نے بھارت کی وزارت خارجہ کو خط لکھ کر بندش کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ جس کے بعد وزارت خارجہ نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

جب سے طالبان کے ہاتھوں میں کابل کا کنٹرول ہے تب سے دہلی میں مشن کے طریقہ کار زیر بحث ہیں، جس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسا مشن ہے جس کی کوئی ریاست نہیں ہے کیونکہ یہ کابل کے موجودہ حکمرانوں یعنی طالبان کی نمائندگی نہیں کرتا ہے اور جن کے ساتھ بھارت کے کوئی سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ اس سے بھارت میں موجود افغانوں میں انتشار کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

اس موضوع پر سابق سفیر انل تریگنایت کا کہنا ہے کہ " طالبان حکومت سے پہلے کے افغان سفیر کو طالبان نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل وہ دہلی سے تیسرے ملک چلے گئے تھے اور باقی ماندہ بہت سے سفارت کار بھی چلے گئے تھے، چنانچہ افغان سفارت خانہ خالی اور بند ہوگیا۔ تاہم بہت سے دوسرے ممالک کی طرح ہم نے بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اپنے شہریوں کی خدمت کے لیے مشن کو برقرار رکھا ہے"۔

تریگنیت نے مزید کہا کہ "کابل میں بھارت کا تکنیکی سطح کا مشن ہے۔ ایسی صورت حال پہلے بھی ہوچکی ہے۔ اس سے قبل جب دوحہ معاہدے کے بعد طالبان نے اقتدار سنبھالا اور یو این ایس سی کی قرارداد منظور ہوئی تو بھارت یو این ایس سی میں روٹیشنل چیئر پر تھا تو طالبان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنی مختلف ذمہ داریاں پوری کریں گے جو آج بڑی حد تک برقرار ہے"۔

اب جبکہ افغان سفارت خانے نے آج دہلی میں اپنے مشن کو مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا ہے تو اس کے بعد جب بھارت کابل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کی بات کرے گا تو پھر یہ دیکھنا ہوگا کہ افغانستان کے اس اقدام پر اس کا موقف کیا ہوتا ہے اور ایک طرح سے یہ بھارت کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہے۔

یہ بھی پڑھیں

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگرچہ بھارت کابل میں طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتا ہے لیکن نئی دہلی کابل میں ایک تکنیکی ٹیم ضرور رکھتا ہے جو کہ بھارت میں افغان مسافروں اور تاجروں کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتا رہتا ہے۔طالبان کے قبضے کے بعد بھارت اور افغانستان کے تعلقات عجیب و غریب رہے ہیں۔

تاہم 24 نومبر بروز جمعہ کو افغان سفارت خانے نے اپنے سرکاری بیان میں کہا کہ نئی دہلی میں اسلامی جمہوریہ افغانستان کا سفارت خانہ اپنے سفارتی مشن کو مستقل طور پر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن حکومت ہند کی طرف سے درپیش مسلسل چیلنجوں کی وجہ سے یہ فیصلہ 23 نومبر 2023 سے نافذ العمل ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ فیصلہ 30 ستمبر 2023 کو ہی لے لیا گیا تھا، یہ قدم اس امید کے ساتھ اٹھایا گیا تھا کہ حکومت ہند کے رویے میں مثبت طور پر تبدیلی آئےگی جس کے بعد مشن کو معمول کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی جا سکے گی۔ لیکن بدقسمتی سے آٹھ ہفتوں کے انتظار کے باوجود سفارت کاروں کے ویزوں میں توسیع اور حکومت ہند کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جس کی وجہ سے سفارت خانے کو ایک مشکل انتخاب کا سامنا کرنا پڑا۔

اب سب کی نظریں افغانستان کے بارے میں بھارت کے موقف پر ٹکی ہوئی ہیں کہ یہ تعلقات کس طرف آگے بڑھیں گے۔ افغانستان کا یہ فیصلہ خود بخود بھارت پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ طالبان کے متعلق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے ابھی تک اس پیش رفت پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details