ہر گزرتے دن کے ساتھ اترپردیش میں انتخابی رجحانات تیزی سے بدل رہی ہے۔ برسر اقتدار بی جے پی، جس سے آئندہ اسمبلی انتخابات UP Assembly elections 2022 میں دوسری بار کلین سویپ کرنے کی امید تھی، اپنے رکن اسمبلی اور کابینی وزراء کو پارٹی چھوڑتے ہوئے دیکھ کر سخت صدمے میں ہے کیونکہ انتخابات کی تاریخیں تیزی سے قریب آرہی ہیں۔
اس کے علاوہ 2024 کے عام انتخابات کے لیے بھی ہر سیاسی پارٹیاں ابھی سے اپنے آپ کو منظم کر رہی تھی لیکن بی جے پی کے متعدد رکن اسمبلی نے پارٹی کو بری طرح سے متاثر کیا ہے۔۔
یوپی کے موجودہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ UP CM Yogi Adityanath نے 20 فیصد مسلم ووٹوں کو چھوڑ کر 80 فیصد ووٹوں پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے، اور ریاست میں پولرائزیشن کے خیال کو تقویت دینے کے لیے انھوں انتخابی ریلی میں 'ابا جان ' جسیے الفاظ کا استعمال کرچکے ہیں تاکہ ان ووٹروں کو اپنی جانب پولرائزیشن کے ذریعہ راغب کیا جسکے جنھوں نے گزشتہ انتخابات میں انھیں اکثریت دلایا تھا۔
ایک ٹی وی چینل کے کنکلیو میں یوگی نے آنے والے انتخابات کو پولرائزیشن سے ہم آہنگ کرنے کے لیے 80 فیصد بمقابلہ 20 فیصد کا ذکر بھی کیا تھا۔
یوگی کے اس متنازع بیان نے ملک گیر بحث کو جنم دے دیا کیونکہ یہ اعداد و شمار اتفاق سے اکثریت اور مذہبی اقلیت کی آبادی کے تناسب سے بالکل درست ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یوگی اس بیان کے تعلق سے مزید انکشاف کرتے کہ ان کا اصل مطلب کیا تھا، سابق مرکزی وزیر اور سینئر کانگریس لیڈر پی چدمبرم نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کیا کہ "مسٹر آدتیہ ناتھ کی لغت میں برہمن ذات نہیں ہے بلکہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے، یوپی میں 80% ووٹر قومی ہیں، 20% ووٹر ملک دشمن ہیں۔’یہ ایک بس اتفاق ہے کہ یوپی کی 19.26 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
اس طرح کے بیانات نے قومی نیوز چینلز پر زبردست بحث چھیڑ دی ہے۔ جس کی تشریح یہ کی گئی کہ یوگی نے انتخابات سے قبل مذہبی تقسیم کے لیے ایک لہجہ قائم کیا اور ان کا مطلب اکثریت بمقابلہ مذہبی اقلیت ہے۔
سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو National President of Samajwadi Party Akhilesh Yadav نے یوگی کے بیان کو ٹویٹ کرکے کہا کہ 80 فیصد ووٹر ایس پی اور 20 فیصد بی جے پی کے ساتھ ہیں۔
یوپی میں انتخابی عمل اس وقت اور بھی زیادہ دلچسپ ہو گیا جب بی جے پی کے متعدد رکن اسمبلی اور کچھ کابینی وزراء نے یوگی پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے پارٹی کو چھوڑ دیا کہ بی جے پی دلتوں، او بی سی اور پسماندہ لوگوں کے تئیں غیر سنجیدہ ہے۔
کچھ میڈیا ہاؤسز کی جانب سے کئے گئے انتخابی سروے کے نتائج کو دیکھتے ہوئے پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یوپی انتخابات بی جے پی کے لیے جیتنا بہت آسان ہونے والے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ دنوں میں چیزیں یکسر بدل گئی ہیں جہاں 10 رکن اسمبلی پہلے ہی بی جے پی سے نکل چکے ہیں اور بہت سے اسمبلی کے پارٹی چھوڑنے کی قیاس آرائیاں لگائی جارہی ہیں۔
پارٹی چھوڑنے والے وزیروں میں سے ایک سوامی پرساد موریہ نے کہا کہ بہت سے لوگ بی جے پی کو چھوڑنے والے ہے اور ہر روز کم از کم ایک یا دو رکن اسمبلی بی جے پی چھوڑ رہے ہوں گے۔
مشرقی یوپی (پوروانچل) سے مٹھ کے مہنت کے طور پر اپنی منفرد امیدواری کے لیے یوگی کو بہت زیادہ مذہبی پرستاروں کے ساتھ دیکھا گیا کہ وہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر پھر کامیاب ہونگے۔ وہ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں زبردست اکثریت کے ساتھ پارٹی کے بڑے اور سینیئر رہنماؤں کے باوجود یوپی کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
2017 کے اسمبلی انتخابات میں پولرائزیشن نے ریاست میں کافی اہم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے ذات پات اور قبیلوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں نے یوگی کو ہی ووٹ دیا سوائے کچھ مسلمانوں کے جو منتشر اور منقسم تھے جن کی کوئی مناسب نمائندگی نہیں تھی۔