مئی کے ابتدا میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ملک کی پارلیمنٹ میں کہا کہ مستقبل قریب میں سفر کے لئے ’’سائیکل کے استعمال کا ایک نیا اور خوبصورت دور شروع ہونا چاہیئے‘‘۔ ’ہیرو سائیکل‘ کی اُس مشہور مہم کو یاد کریں، جس میں دو سال قبل ’’روڈ پر دِکھے گی تبھی تو چلے گی‘‘ کا فقرہ زبان زد عام ہوگیا تھا۔ اس مہم کا مقصد سائیکل کے استعمال کو عام کرنا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ کووِڈ19 کے بعد سائیکل کے استعمال کا رجحان یقینی طور بڑھ جائے گا اور اس کے لئے کوئی بہت بڑی مہم چلانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ سوشل ڈسٹنسنگ کے اس دور میں اگر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے کے بجائے سائیکل پر سوار ہوکر اپنے کام پر جائیں تو یہ حیران کُن نہیں ہوگا۔ یورپین پارلیمنٹ نے ملازمین سے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اُن سے کہا ہے کہ وہ ’’پیدل چلیں، یا سائیکل کا استعمال کریں یا پھر انتہائی مجبوری کی صورت میں اپنی نجی کار کا استعمال کریں۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی ایک دوسرے سے جسمانی رابطہ محدود کرنے کےلئے سائیکل کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔
سائیکل بلا شبہ ٹرانسپورٹیشن کا سب سے پائیدار جز ہے۔ یہ ماحولیات دوست بھی ہے اور کم خرچ کا حامل بھی ہے۔ ماضی میں سائیکل کا استعمال مہلک فضائی آلودگی کو کم کرنے کےلئے کیا جانے لگا تھا۔ تاہم بعد میں لوگوں نے اس کا استعمال کرنا کم کردیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایک دوسرے سے محفوظ دوریاں بنائے رکھنے کے لئے لوگ اب جزوی طور ہی سہی لیکن سفر کے لئے سائیکل کا استعمال کرنا پھر سے شروع کردیں گے۔وبا کے بعد اب لوگوں میں ایک دوسرے سے سوشل ڈسٹنسنگ کو یقینی بنانے کےلئے دہلی میٹرو کو اپنی سروس میں چھ گنا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ممبئی کی سُبر بن ریلوئے میں چودہ سے سولہ گنا اضافہ کرنا پڑے گا اور بنگلور میٹروپالیٹن ٹرانسپورٹ کورپوریشن کو بیڑے میں مزید چوبیس ہزار بسوں کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی گنجائش کم ہوجانے کی وجہ سے اب بڑے شہروں میں سڑکوں پر ٹرانسپورٹیشن کا کچھ نیا انتطام ہونا لازمی ہے اور اس ضمن میں سائیکل کے استعمال کو فروغ دینا ایک بہترین حل قرار دیا جارہا ہے۔
سائیکل کا استعمال ایک اچھا حل تو ہے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس کے لئے سڑکوں پر علاحدہ راہدریاں بنانی ہوں گی۔تاکہ سائیکل کا استعمال محفوظ ہو۔ ڈینمارک اور نیدر لینڈ جیسے ممالک میں سائیکل چلانے کےلئے سڑکوں سے منسلک علاحدہ راہداریاں بنی ہوئی ہیں۔ نیدر لینڈ میں سائیکلوں کے لئے بنائی گئی یہ راہدریاں دکانوں، رہائشی بستیوں، اسکولوں وغیرہ سے منسلک ہیں۔
کووِڈ19 کی وجہ سے دُنیا بھر میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ بلا شبہ ’’تباہی تو چلے گی‘‘۔ نیو یارک میں سائیکل چلانے کےلئے علاحدہ راہداریوں میں مزید چالیس کلو میٹر کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کولمبیا کے علاقے بگھوٹا میں 76 کلو میٹر طویل سائیکل کی راہداری راتوں رات تعمیر کی گئی۔ نیوزی لینڈ کے ایک شہر آکلینڈ میں سٹریٹ کار پارکنگ کو ختم کرکے 17 کلو میٹر سائیکل لین بنائی گئی۔ اٹلی کے شہر ملان میں پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کےلئے 35 کلو میٹر طویل راہداری تعمیر کی گئی۔ پیرس میں ساڑھےچھ سو کلو میٹر طویل سائیکل راہداری تعمیر کی جارہی ہے۔برطانیہ نے سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے پر دو بلین پونڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی دیگر شہروں میں بھی سائیکل چلانے کی عارضی راہداریاں بنانے یا پہلے سے بنی راہداریوں کو وسعت دینے کی شروعات ہوچکی ہے۔
بھارت میں بھی اس قسم کی تبدیلی آنے والی ہے۔ بنگلورو، تھروونان تھاپورم، چنئی اور نئی دہلی جیسے شہروں میں بھی ماحولیات دوست ٹرانسپورٹ نظام متعارف کرانے کے منصوبوں پر کام شروع ہورہا ہے۔ مکانات اور شہری ترقی کی مرکزی وزارت نے سمارٹ سٹی منصوبوں سے متعلق ’’انڈیا سائیکل فار چینج چیلنج‘‘ کی مہم بھی شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے پر دس شہروں میں سائیکل کے استعمال سے متعلق پروجیکٹوں کو نافذ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام کووِڈ 19 کے انسداد کے ضمن میں کئے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔