اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

کیا سائیکل پر سفر کرنے کا رواج پھر سے عام ہوگا؟

کلکتہ کے انڈین سٹیٹسٹِکل انسٹی ٹیوٹ کے سٹیٹسٹکس کے پروفیسر اتانو بسواس نے کہا ہے کہ کورونا کے دور میں سماجی دوری کو برقراررکھنے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کے بجائے سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت میں بھی اس قسم کی تبدیلی آنے والی ہے۔ بنگلورو، ترواننت پورم، چنئی اور نئی دہلی جیسے شہروں میں بھی ماحولیات دوست ٹرانسپورٹ نظام متعارف کرانے کے منصوبوں پر کام شروع ہورہا ہے۔ مکانات اور شہری ترقی کی مرکزی وزارت نے سمارٹ سٹی منصوبوں سے متعلق ’’انڈیا سائیکل فار چینج چیلنج‘‘ کی مہم بھی شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے پر دس شہروں میں سائیکل کے استعمال سے متعلق پروجیکٹوں کو نافذ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام کووِڈ 19 کے انسداد کے ضمن میں کئے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔

کیا سائیکل پر سفر کرنے کا رواج پھر سے عام ہوگا؟
کیا سائیکل پر سفر کرنے کا رواج پھر سے عام ہوگا؟

By

Published : Jul 13, 2020, 5:41 PM IST

مئی کے ابتدا میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے ملک کی پارلیمنٹ میں کہا کہ مستقبل قریب میں سفر کے لئے ’’سائیکل کے استعمال کا ایک نیا اور خوبصورت دور شروع ہونا چاہیئے‘‘۔ ’ہیرو سائیکل‘ کی اُس مشہور مہم کو یاد کریں، جس میں دو سال قبل ’’روڈ پر دِکھے گی تبھی تو چلے گی‘‘ کا فقرہ زبان زد عام ہوگیا تھا۔ اس مہم کا مقصد سائیکل کے استعمال کو عام کرنا تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ کووِڈ19 کے بعد سائیکل کے استعمال کا رجحان یقینی طور بڑھ جائے گا اور اس کے لئے کوئی بہت بڑی مہم چلانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔ سوشل ڈسٹنسنگ کے اس دور میں اگر لوگ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنے کے بجائے سائیکل پر سوار ہوکر اپنے کام پر جائیں تو یہ حیران کُن نہیں ہوگا۔ یورپین پارلیمنٹ نے ملازمین سے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال سے گریز کرنے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے اُن سے کہا ہے کہ وہ ’’پیدل چلیں، یا سائیکل کا استعمال کریں یا پھر انتہائی مجبوری کی صورت میں اپنی نجی کار کا استعمال کریں۔‘‘ عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے بھی ایک دوسرے سے جسمانی رابطہ محدود کرنے کےلئے سائیکل کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔

سائیکل بلا شبہ ٹرانسپورٹیشن کا سب سے پائیدار جز ہے۔ یہ ماحولیات دوست بھی ہے اور کم خرچ کا حامل بھی ہے۔ ماضی میں سائیکل کا استعمال مہلک فضائی آلودگی کو کم کرنے کےلئے کیا جانے لگا تھا۔ تاہم بعد میں لوگوں نے اس کا استعمال کرنا کم کردیا تھا۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ایک دوسرے سے محفوظ دوریاں بنائے رکھنے کے لئے لوگ اب جزوی طور ہی سہی لیکن سفر کے لئے سائیکل کا استعمال کرنا پھر سے شروع کردیں گے۔وبا کے بعد اب لوگوں میں ایک دوسرے سے سوشل ڈسٹنسنگ کو یقینی بنانے کےلئے دہلی میٹرو کو اپنی سروس میں چھ گنا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ممبئی کی سُبر بن ریلوئے میں چودہ سے سولہ گنا اضافہ کرنا پڑے گا اور بنگلور میٹروپالیٹن ٹرانسپورٹ کورپوریشن کو بیڑے میں مزید چوبیس ہزار بسوں کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی گنجائش کم ہوجانے کی وجہ سے اب بڑے شہروں میں سڑکوں پر ٹرانسپورٹیشن کا کچھ نیا انتطام ہونا لازمی ہے اور اس ضمن میں سائیکل کے استعمال کو فروغ دینا ایک بہترین حل قرار دیا جارہا ہے۔

سائیکل کا استعمال ایک اچھا حل تو ہے لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس کے لئے سڑکوں پر علاحدہ راہدریاں بنانی ہوں گی۔تاکہ سائیکل کا استعمال محفوظ ہو۔ ڈینمارک اور نیدر لینڈ جیسے ممالک میں سائیکل چلانے کےلئے سڑکوں سے منسلک علاحدہ راہداریاں بنی ہوئی ہیں۔ نیدر لینڈ میں سائیکلوں کے لئے بنائی گئی یہ راہدریاں دکانوں، رہائشی بستیوں، اسکولوں وغیرہ سے منسلک ہیں۔

کووِڈ19 کی وجہ سے دُنیا بھر میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ بلا شبہ ’’تباہی تو چلے گی‘‘۔ نیو یارک میں سائیکل چلانے کےلئے علاحدہ راہداریوں میں مزید چالیس کلو میٹر کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ کولمبیا کے علاقے بگھوٹا میں 76 کلو میٹر طویل سائیکل کی راہداری راتوں رات تعمیر کی گئی۔ نیوزی لینڈ کے ایک شہر آکلینڈ میں سٹریٹ کار پارکنگ کو ختم کرکے 17 کلو میٹر سائیکل لین بنائی گئی۔ اٹلی کے شہر ملان میں پیدل چلنے اور سائیکل چلانے کےلئے 35 کلو میٹر طویل راہداری تعمیر کی گئی۔ پیرس میں ساڑھےچھ سو کلو میٹر طویل سائیکل راہداری تعمیر کی جارہی ہے۔برطانیہ نے سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے پر دو بلین پونڈ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی دیگر شہروں میں بھی سائیکل چلانے کی عارضی راہداریاں بنانے یا پہلے سے بنی راہداریوں کو وسعت دینے کی شروعات ہوچکی ہے۔

بھارت میں بھی اس قسم کی تبدیلی آنے والی ہے۔ بنگلورو، تھروونان تھاپورم، چنئی اور نئی دہلی جیسے شہروں میں بھی ماحولیات دوست ٹرانسپورٹ نظام متعارف کرانے کے منصوبوں پر کام شروع ہورہا ہے۔ مکانات اور شہری ترقی کی مرکزی وزارت نے سمارٹ سٹی منصوبوں سے متعلق ’’انڈیا سائیکل فار چینج چیلنج‘‘ کی مہم بھی شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں پہلے مرحلے پر دس شہروں میں سائیکل کے استعمال سے متعلق پروجیکٹوں کو نافذ کیا جارہا ہے۔ یہ اقدام کووِڈ 19 کے انسداد کے ضمن میں کئے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔

سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے کی ضرورت سے متعلق عالمی سطح پر ہورہی بیداری کے چلتے سائیکل بنانے والی کمپنیاں بڑے شہروں میں متحرک ہوگئی ہیں۔ کئی سائیکل بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار میں ایکدم اضافہ ہونے لگا ہے۔ حقیقت میں وبا کے پھیلاؤ کے بعد بازاروں میں سائیکل کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

کئی ممالک میں حکومتیں عوام کو سائیکل خریدنے کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی میں لاک ڈاؤن کے بعد پانچ سو پائونڈ ’سائیکل بونس‘ دیا جانے لگا ہے جبکہ اُن علاقوں جہاں پچاس ہزار سے زائد آبادی ہے، میں لوگوں کو سائیکل کی قیمت میں 60 فیصد تک چھوٹ دی جارہی ہے۔ فرانس کی حکومت لوگوں کو پچاس پونڈ کی ایک رسید دے رہی ہے۔ اس رقم کے ذریعے سائیکل کی مرمت کرائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکام کی جانب سے سائیکل کے استعمال کو فروغ دینے کے حوالے کئی طرح کے دیگر مراعات بھی دیے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے ایک بڑے شہر لیان میں الیکٹرک بائسیکل، فولڈنگ سائیکل یا کارگو سائیکل کی خریداری پر لوگوں کو پانچ سو پونڈ کی سبسڈی دی جارہی ہے۔ پرتگال کی راجدھانی لسبان میں سائیکل خریدنے کےلئے نقدی دی جارہی ہیں۔

سائیکل پر سفر کے دوران شاٹ کٹ راستے اختیار کرنے کے نتیجے میں سفر ساٹھ فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔ بھارت کے شہروں میں بھی سائیکل کے اس طرح کے استمعال کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ تاہم بھارت کے ہر شہر میں سائیکل کا استعمال کرنا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ بھارت میں عام طور سے سائیکل اُن شہروں میں استعمال کیا جاتا ہے، جہاں آبادیاں دو ملین سے کم ہوں۔ زیادہ آبادی والے شہروں میں سائیکل کا استعمال کرنے والوں کی شرح کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال کے طور پر کولکتہ جیسے شہر میں سات فیصد سے کم زمین پر سڑکیں تعمیر ہیں۔ یہاں سائیکلوں کے لئے علاحدہ راہدریاں بنانا بہت ہی مشکل ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک مسئلہ کہ کئی شہروں میں ٹریفک قوانین کو یا تو سمجھا ہی نہیں جاتا ہے یا پھر ان شہروں کے لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ ٹریفک قوانین اُن پر لاگو ہی نہیں ہوتے ہیں۔

میرا ایک برطانوی دوست ہے جو واروِک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ وہ اپنے گھر سے کئی کلو میٹر دور ریلوے اسٹیشن تک سائیکل پر آتے ہیں۔ پھر سائیکل کو بھی ٹرین میں لاد کر یونیورسٹی پہنچتے ہیں۔ یونیورسٹی کیمپس میں پھر سائیکل استعمال کرتے ہیں۔ کیا ہمارے یہاں اس طرح سے مقامی ٹرینوں میں سائیکل کو لادا جاسکتا ہے؟بہرحال تمام قسم کی دقتوں کے باوجود سائیکل کے استعمال کا رجحان عام ہوجانا اب پہلے سے زیادہ ممکن ہے۔

اتانو بسواس

(پروفیسر آف سٹیٹسٹکس، انڈین سٹیٹسٹِکل انسٹی ٹیوٹ، کولکتہ)

ABOUT THE AUTHOR

...view details