عالمی معیشت میں ملک کی ترقی کا انحصار ہمیشہ اس بات پر ہوتا ہے کہ تعلیمی معیار کتنا بہتر ہے اور اس شعبے میں کتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ یعنی ملک کی ترقی اس بات پر منحصر ہے کہ طلبا و طالبات کے مجموعی اندراج کا تناسب یعنی گراس اینرولمنٹ ریشیو (جی ای آر) کیا ہے اور کیا نوجوانوں کی صلاحیتیں نکھر کر ملک کی ترقی کےلئے اُن کی خدمات استعمال کی جارہی ہیں یا نہیں۔اس ہدف کے حصول کےلئے تعلیمی شعبے میں مواقعے بڑھانے ہوں گے اور ڈگریاں تفویض کرنے کے نظام کو بہتر بنانے اور سیکھنے سکھانے کے مکانزم کو لچکدار بنانا ہوگا۔
حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کےلئے طویل عرصہ سے متوقع تعلیمی پالیسی کو متعارف کرنا ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ پالیسی دستاویز ڈاکٹر کستوری رنگن کی زیر نگرانی سرکردہ ماہرین نے ایک طویل صلاح و مشورے کے عمل سے گزرتے ہوئے تیار کیا ہے۔ دستاویز کے ڈرافٹ کو پہلے لوگوں کی آرا جاننے کےلئے عوام کے سامنے لایا گیا تھا اور بالآخر اس پالیسی کو کابینہ نے اپنی منظوری دے دی ہے اور اسے جلد ہی توثیق کےلئے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
یہ نئی تعلیمی پالیسی دیر آئد درست آئد کے مصداق ہمارے سامنے آچکی ہے۔ یہ یقین کرنا محال ہے کہ ایک ملک کو اس طرح کی ایک نئی تعلیمی پالیسی کے لئے تین دہائیوں کا انتظار کرنا پڑا ہے۔ ان تین دہائیوں کے دوران دُنیا بھر میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ اس عرصے کے دوران کمپیوٹر سے جڑی ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بڑھ چکا ہے، ایک موثر مواصلاتی نظام قائم ہوگیا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر بہت آسان بن گیا ہے۔ اس عرصے میں نوجوانوں کے رویوں میں رونما ہوئی تبدیلی کو دیکھ کر حکومت نے اس بات کا بھر پور اندازہ لگایا ہے کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی نظام میں تبدیلی لانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ متعلقہ کمیٹی نے موجودہ نسل کے خوابوں کی تعبیر کےلئے احتیاط کے ساتھ کام کیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کو مرتب کرتے ہوئے حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کی بھی کوشش کی ہے کہ بھارتی نوجوانوں کو بہتر تعلیم کے حصول کےلئے ملک سے باہر نہ جانا پڑے۔
نصاب مادری زبان میں:
نئی تعلیمی پالیسی کے تحت اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی سطح پر کئی طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ اسکولوں میں پانچویں جماعت تک بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے گی اور اگر ممکن ہو تو اسے ہائر ایجوکیشن تک رائج کیا جاسکتا ہے۔ کئی ممالک میں مقامی زبانوں میں سکھانے کا طریقہ کار سود مند ثابت ہوچکا ہے۔ جاپان، جرمنی، فرانس، کوریا اور چین وغیرہ جیسے ممالک اس ضمن میں اہم مثالیں ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تحقیق کے حوالے سے یہ ممالک دُنیا کے کئی دیگر ممالک سے بہت آگے ہیں۔ ان مثالوں سے سیکھنا بہت ضروری ہے۔
اعلیٰ تعلیم کی عُمدگی کے لئے کئی سود مند تبدیلیوں کو منظوری:
اعلیٰ تعلیم کو عام کرنے اور سیکھنے والوں کے لئے غیر معمولی اور لچکدار سہولیات فراہم کرنے کے مقصد سے کمیٹی کی جانب سے کئی پے درپے تبدیلیاں لانے کی تجاویز کو کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت انڈر گریجویٹ پروگرام تین یا چار سال پر محیط ہوگا اور پوسٹ گریجویٹ پروگرام ایک یا دو سال پر محیط ہوگا۔ چار سالہ بیچلرز ڈگری کو حاصل کرنے والے طلبا تحقیقی ڈگریاں حاصل کرنے یعنی پی ایچ ڈی کرنے کی جانب راغب ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس گریجویشن پروگرام میں طلبا و طالبات کو چار سالہ ڈگری کے حصول کے دوران پروجیکٹ رپورٹ لکھنے کی صلاحیت بھی حاصل ہوگی۔