سرینگر: وادی کشمیر میں گذشتہ چند مہینوں سے شہری ہلاکتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے جو سکیورٹی فورسز کے لیے ایک بڑا اور نیا چلینج بن کر سامنے آیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق سال رواں کے دوران اب تک 12 ٹارگیٹ ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں اقلیتی فرقہ کے لوگ، غیر مقامی مزدوروں اور پنچوں سرپنچوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔علاوہ ازیں ٹارگیٹ حملوں میں قریب ایک درجن غیر مقامی مزدور زخمی بھی ہوگئے ہیں۔ Target Killing in Kashmir
وادی کے مختلف علاقوں میں سال رواں کے ماہ مئی سے اب تک چھ ٹارگیٹ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ٹارگیٹ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ اس وقت ہو رہا ہے جب سکیورٹی فورسز نے وادی میں عسکریت پسندوں اور ان کے معاونین کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز شروع کر رکھی ہیں۔ سال رواں کے دوران اب تک وادی میں زائد از 90 عسکریت پسند جن میں کئی اعلیٰ کمانڈر بھی شامل تھے کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کی تنسیخ کے ساتھ ہی وادی میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوا جب کہ بعض مبصرین بھی ان حملوں کو دفعہ 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی جوڑتے ہیں۔ دفعہ 370 کی تنسیخ کے تین ماہ بعد یعنی 29 اکتوبر 2019 کو وادی میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا پہلا واقعہ پیش آیا جب جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے پانچ مسلمان مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ بعد ازاں زائد از ایک برس یعنی سال 2021 تک یہ سلسلہ رک گیا۔
جنوری 2021 میں سرینگر میں ستپال نشچل نام کے ایک سونار کو اپنے ہی دکان میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا اور اس واقعے کے دو ماہ بعد سرینگر میں ہی کرشنا ڈھابہ کے مالک کے بیٹے آکاش مہرا کو مارا گیا۔ اکتوبر 2021 میں ٹارگیٹ ہلاکتوں کا یہ سلسلہ تیز ہوگیا جس نے سکیورٹی نظام کو ہلا کر رکھ دیا۔
سرینگر کے سول لائنز علاقے میں مشہور میڈیکل اسٹور ’بندرو میڈیکیٹ‘ کے مالک مکھن لال بندرو کو مارا گیا اور اسی شام بہار سے تعلق رکھنے والے ایک پانی پوری بیچنے والے کو ہلاک کر دیا گیا۔ اگلی ہی صبح سرینگر میں ہی گورنمنٹ ہائیر سکینڈری اسکول سنگم کی پرنسپل سپندر کور اور ان کے دوسرے ساتھی دیپک چند کو اسکول احاطے میں ہی ہلاک کر دیا گیا۔اسی ماہ کے دوران مزید چار غیر مقامی مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔