اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

سری لنکا کے پارلیمانی انتخابات: بھارت کو کڑوا گھونٹ پینا ہی ہوگا!

کولمبو میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ نگار دلرخشی ہندونیتی نے کہا ہے کہ سری لنکا میں پارلیمانی انتخابات 5 اگست کو ہونے والے ہیں۔ راجاپکشا بھائی کی زیر قیادت والی پارٹی ایس ایل پی پی اس انتخابات میں ایک طرفہ جیت حاصل کرسکتے ہیں۔دلرخشی ہندونیتی نے کہا کہ اس جیت سے کولمبو مزید بیجنگ کی طرف مزید جھکاؤ بڑھ سکتا ہے جس سے سری لنکا اور اس کے ہمسایہ ملک بھارت کے مابین ممکنہ طور پر تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔

سری لنکا کے پارلیمانی انتخابات: بھارت کو کڑوا گھونٹ پینا ہی ہوگا!
سری لنکا کے پارلیمانی انتخابات: بھارت کو کڑوا گھونٹ پینا ہی ہوگا!

By

Published : Aug 4, 2020, 5:03 PM IST

کولمبو: بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں سری لنکا کی موجودہ حکومت سے’’مردانگی کا ایک مضبوط احساس‘‘ چھلک رہا ہے۔ جنگ سے تنگ آچکی بحرِ ہند جزیرے کی قوم کیلئے یہ ’’اسٹرانگ مین پالیٹکس‘‘ اپنا اثر باقی رکھے ہوئے ہے، البتہ یہ اثر زیادہ تر ثقافتی طور مذہبی سنہالا بودھوں کی اکثریت کو لبھانے کے لیے کیا جارہا ہے۔دو راجاپکشا بھائی، جو سری لنکا پیوپلز فرنٹ (ایس ایل پی پی) کی صدر اور عبوری وزیرِ اعظم کے طور پر قیادات کر رہے ہیں، دراصل یہ ایک 'کلٹ اپیل'(یعنی ایک خاص فریق کو اپنی طرف مائل کرنا) کی صورت میں الیکشن جیتنے کا فارمولہ بن گیا ہے، جس کی مدد سے وہ سری لنکا میں 5 اگست کو ہونے والے نئے پارلیمانی انتخاب میں فائدہ حاصل کرسکیں۔

سرکار اپنی اس ’’مضبوط‘‘ شبیہ کو پھر سے سامنے لانے کی خواہاں ہے اور اپنے آپ کو جنوبی ایشیاٗ کے ایسے واحد ملک کے بطور پیش کررہی ہے کہ اس نے کووِڈ 19- کی صورتحال کو قابو کیا ہے اور جہاں نہ صرف اس وبا کی وجہ سے سب سے کم صرف 11 اموات ہوئی ہیں بلکہ ایسی صورتحال میں جہاں دنیا کے کئی ممالک اب بھی لاک ڈاؤن سے پریشان ہیں، وہاں اب ملک گیر صدارتی انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔جیسا کہ جزیرے کی تجارتی راجدھانی کولمبو سے امیدوار ومل ویرا ونسا کو ایک حالیہ عوامی اجتماع میں کہتے ہوئے سنا گیا کہ' یہ ایک سیاسی قیادت کا اصل امتحان ہے'۔انہوں نے اس عوامی اجلاس میں کہا کہ ملک میں یہ ایک عوامی احساس بن گیا ہے کہ راجاپکشا بھائیوں نے ملک کی پرورش کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے اچھا کام کیا ہے۔

5 اگست کو کوئی 70 سیاسی جماعتیں، 313آزاد گروہ اور 7,452 امیدوار انتخابی میدان میں ہونگے۔

ایس ایل پی پی نے انتخابی مہم کے دوران ایس ایل پی پی نے بعض دیگر 'کرڈنشلز'( اپنی صلاحیتوں) کی بھی تشہیر کی۔ان راجاپکشا بھائیوں کو قومی ہیروز کے طور پر دیکھا جارہا ہے جنہوں نے تامل عسکریت پسند تنظیم لبریشن ٹائگریس تامل ایلم(ایل ٹی ٹی ای) کے ساتھ طویل عرصے سے جاری جنگ کو ختم کرکے جزیرے کے ماحول کو بہتر کیا،ساتھ میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر (چین سے بھاری قرضے لیکر) انفراسٹریکچر پروجیکٹس کو متعارف کروایا،ساتھ میںاس غلط فہمی کو بھی دور کیا کہ قومی انتخابات میں جیت کا دارومدار اقلیتوں کے ووٹ حاصل کرنے کی اہلیت پر ہے اور سب سے اہم کووڈ 19 جیسی صورتحال کو قابو میں کیا۔

اگرچہ اس طرح کے اوصاف ووٹروں کو لبھانے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔سری لنکا کے دو طاقتور بھائی صدر گوتا بھایا راجاپکشا اور ان کے بڑے بھائی اور دو بار صدر رہ چکے مہندر راجاپکشا دونوں ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے ہیں۔پارلیمانی اقتدار کو حاصل کرنے کی ان کی مشترکہ ضرورت سے ہٹ کر دونوں راجاپکشا بھائیوں کو متحدہ ہوکر چلنے کے لیے بھی جانا جاتا ہے، جو اپنے آپ میں ایک عام ووٹر کو لبھانے والی بات ہے۔البتہ ییہ ساری چیزیں ووٹروں کو سمجھائی نہیں جاتی ہیں لیکن وہ یہ دونوں بھائیوں کو ایک ساتھ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

دو تہائی اکثریت

صدرگوٹابایا راجاپکشا 2015 کی صدر مائتھریپالا سریسینا اور وزیرِ اعظم رانیل میکیویسنگی کی اصلاح پسند حکومت کی آئین میں متعارف کردہ 19 ویں ترمیم کو بحال کرنے کیلئے ایوان میں دو تہائی اکثریت چاہتے ہیں۔ موجودہ صدر سابق حالت کو بحال کرنے کے خواہشمند ہیں جب صدرِ مملکت کو 1978 کے آئین کے تحت لامحدود اختیارات حاصل تھے۔ اسکے برعکس 19 ویں ترمیم نے صدر کے ایکزیکٹیو اختیارات کو کم اور وزارتِ عظمیٰ کے اختیارات کو بڑھاکر خود مختار کمیشنوں کے قیام کے ذریعہ اہم اداروں کو غیر سیاسی بنانے کا راستہ ہموار کردیا ہے اور یہ ڈھانچہ ایک ایسے صدر کے لئےنا پسندیدہ ہے جس نے "ذاتی نظم و ضبط پر قائم ایک نیک معاشرہ" بنانے کا عہد کیا ہے اور اس عمل میں فوجی اہلکاروں کو پبلک سروس میں لگا کر ان میں سے کئیوں کو اہم عوامی عہدوں پر فائز کیا گیا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ اعظم مہندا راجاپکشا اس صورتحال کو واپس نہ لانے (نان ریورسل) کیلئے یہ الیکشن لڑ رہے ہیں۔چناچہ 19 ویں ترمیم نے ماضی کے رسمی عہدہ کے بر خلاف وزارتِ عظمیٰ کو مزید طاقت دی ہے اور اقتدار کے ایکزیکٹیو و لیجسلیٹیو بازؤں کے درمیان جانچ پڑتال اور توازن کے نظام کو مزید طاقتور اور مؤثر بنادیا ہے۔

ان کی اپنی ذاتی مقبولیت اور عوامی خزانہ کو کنٹرول کرنے کی ضرورت کے مشترکہ طور معتبر راجاپکشا کو انتخابات کے بعد مختلف طریقے سے ووٹروں کے سامنے لانے اور انکے پارلیمنٹ کو اپنے مقاصد کی جانب لیجانے کا امکان ہے ۔ لیکن فی الحال ابھی ان کا مقصد انتخابات کو جیتنا ہے

گو دو تہائی اکثریت کا حصول دور کی بات ہے،مہندا راجاپکشا کی خوش قسمتی یہ ہے کہ 5 اگست کے انتخابات کے نتیجے یقینی طور پر ایک گھوڑے کی دوڑ ثابت ہوگی۔موجودہ حکومت آسانی کے ساتھ جیتنے ہی والی ہے اور اس امکان کو کئی عوامل تقویت پہنچا رہے ہیں جیسے کہ پیش کردہ مضبوط قیادت،انفارمیشن کنٹرول، بہت اچھے سے قائم کردہ پروپیگنڈہ مشین اور عوامی اداروں کو خاموشی سے فوج کے حوالے کیا جانا۔ آخرالذکر کو سری لنکائی سماج میں نظم و ضبط اور قابلیت کا عنصر داخل کرنا ہے جسکی اسے شدت کے ساتھ ضرورت ہے۔پارلیمانی انتخابات کے بنیادی امیدوار ،راجاپکشا کیلئے سب سے حوصلہ افزأ بات اپوزیشن کی گہری تقسیم ہے۔ یہ ایک واحد پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہے جو سارے اپوزٹ ووٹ کو تقسیم کر رہی ہے۔ پھر سنہالا بودھ اکثریت میں، حقوق کی پامالیوں کی وراثت اور دھونس دباؤ کے ہتھکنڈوں کی تاریخ کے باوجود، کافی عوامی اعتماد بھی ہے۔اسکے برعکس،بنیادی اپوزیشن کے پاس دو دھڑے ہیں، ایک سابق وزیرِ اعظم رانیل وکریمیسنگھی کی قیادت والی یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (یو این پی) اور ایک باغی دھڑا،جسکی قیادت یو این پی کے سابق وزیرِ مکانات ساجتھ پریماداسا کر رہے ہیں۔ان میں سے آخرالذکر کے انتخابی فوائد،مقابلتاََ، زیادہ واضح ہیں۔

ان ساری چیزوں کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ راجا پکشا کی جیت یقینی ہے لیکن ایسی جیت نہیں کہ جو ایس ایل پی پی کو دو تہائی اکثریت پر لے آئے،ہاں اسے ایک ایسی اکثریت مل سکتی ہے کہ جسکے بل بوتے پر سرکار آرام سے کام کر سکے۔

پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات

دونوں بھائیوں کی مختلف سیاسی ضروریات کے باوجود اس وجوہات پر یقین کیا جارہا ہے کہ مہندا راجا پکشا ملک کو مزید چین کے اثر و رسوخ کے مدار میں لے جائیں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک کووِڈ19- کی وجہ سے پیدا ہوئے معاشی بحران سے نکلنا چاہتی ہے۔

سری لنکا میں 5 اگست کے انتخابات پر خاص طور سے امریکہ اور دو علاقائی طاقتیں بھارت اور چین جیسے ممالک نے نظریں رکھی ہوئی ہیں۔ بحرِ ہند جزیرہ (سری لنکا) دنیا کے سب سے مصروف ترسیل والے راستوں میں سے ایک ہے،چونکہ اس نے چین کے لالچی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے تحت اعلیٰ پیمانے کے انفرا اسٹرکچر ڈیولوپمنٹ، جس میں سے کئی پروجیکٹ جزیرے کے گہرے جنوب میں راجاپکشا کے آبائی ہمبنتوتا میں ہیں، کیلئے بھاری قرضہ لیا ہوا ہے، موجودہ انتظامیہ چین کی طرف بہت زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے ۔

جولائی کی ابتدأ میں وزیرِ اعظم مہندا راجاپکشا نے ایک بیان دیا کہ سری لنکا،جاپان اور بھارت کے درمیان 2019 کے سہ فریقی معاہدے کے تحت کولمبو بندرگاہ کے مشرقی ٹرمنل (کولمبو پورٹس ایسٹ کنٹینر ٹرمنل) یا ای سی ٹی کی مشترکہ ترقی کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہے۔ چونکہ ٹریڈ یونینوں نے بھارت کو "قومی اثاثے بیچنے" کے خلاف شور مچانا شروع کیا ہے ، انتظامیہ نے ایک مضبوط پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے کو مقصد بنایا ہے۔ جسکے لئے ، حالانکہ عارضی طور پر ، راجاپکشا کو عوام کو رجھانے کی کوششیں کرنا پڑ رہی ہیں۔ تاہم تعاون کی یاداشت یا میمورنڈإ آف کواپریشن کے تحت سری لنکا پورٹس اتھارٹی (ایس ایل پی اے) کو اس سہولت کی سو فیصد ملکیت رکھنے کیلئے کہا گیا تھا۔ اسکے علاوہ کولمبو کی جانب سے دوطرفہ اور سارک معاہدوں کے تحت،جن سبھی کو نئی دلی نے روکا ہوا ہے، زرِ مبادلہ کے تبادلہ کے ساتھ 960 ملین ڈالر قرضے کی بھی درخواست ہے۔

سری لنکا کے انتخابات نہ صرف ملک کے مستقبل کی سیاسی سمت اور ایگزیکٹو پاور کی تشکیل اور عبوری انصاف کے رکے ہوئے عمل کی ممکنہ موت کے حوالے سے مضبوط اشاروں کا کام کرینگے بلکہ اس بات کیلئے بھی کہ سری لنکا خطرناک حد تک چین کے قریب جائے گا جس سے جیواسٹریٹجک جزیروں والے ممالک اور پڑوسی طاقت بھارت کے درمیان نیا تناؤ پیدا ہوسکتا ہے۔

بھارت-سری لنکا تعلقات کبھی بھی آسان نہیں رہے ہیں اور ان میں کئی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔تاہم ان تعلقات کی ہمیشہ سے یہ بنیاد رہتی آئی ہے کہ بھارت کے علاقائی سلامتی کے خدشات دوسرے تمام معاملات کو اپنی آڑ میں لیتے رہےہیں۔نئی دہلی کے ردِ عمل میں مسلسل جزیرے (سری لنکا) میں بڑھتے ہوئے چینی اثرورسوخ کا خوف جھلک رہا ہے جو بنیادی طور پر بھارتی تجارت کی وسعت کیلئے ایک خطرہ ہے۔ بھارت کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے جھوٹ سے کام لیتے ہوئے مہندا راجاپکشا 2005 سے کھلے عام چین کے ساتھ ہوگئے ہیں۔چونکہ نئی سرکار کو جاری وبأ کی وجہ سے تباہ ہورہی معیشت کو بحال کرنا ہے لہٰذا راجاپکشا چین کے مزید نزدیک جائیں گے اور بھارت کو ، جغرافیائی سیاسی لحاظ سے اسٹریٹجک بحرِ ہند جزیرے ، جو 5 اگست کے بعد بیجنگ کے مزید قریب جانے کے سبھی اشارے دے رہا ہے، میں کسی حد تک قدم جمائے رکھنے کیلئے ناپسندیدگیوں کو قبول کرنا ہی پڑے گا۔

دلرخشی ہندونیتی کولمبو میں مقیم ایک سیاسی تجزیہ نگار،تحقیقی صحافی اور وکیل ہیں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details