کانگریس پارٹی کو درپیش چیلنجز، جن میں اسکی قیادت کا بحران بھی شامل ہے، پر غور فکر کےلئے بلایا گیا اجلاس جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے کے فیصلے پر منتج ہوا۔سونیا گاندھی تب تک بدستور پارٹی کی عبوری صدر رہیں گی، جب تک اُن کے بیٹے راہل گاندھی پارٹی کی لگام سنبھالنے کےلئے تیار نہیں ہوں گے۔ انتخابی عمل کےلئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس غیر متعینہ وقت پر بلایا جائے گا۔
اجلاس کے اس انجام پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات بلا شبہ حیران کن ہے کہ کانگریس پارٹی کے بڑے لیڈروں کو اس طرح کا فیصلہ لینے کےلئے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا سات گھنٹے طویل اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی، جبکہ یہ فیصلہ معمول کے پارٹی بیان میں بھی سُنایا جاسکتا تھا۔ آج دن بھر کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ورچیول میٹنگ میں جو کچھ بھی ہوا، ظاہر ہے کہ پارٹی کے منتظمین نے ہرگز اس کی خواہش نہیں کی ہوگی۔ کیونکہ کانگریس کے مخالفین کےلئے یہ بات باعث مسرت رہی ہوگی کہ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی میں اختلاف رائے سامنے آگیا ہے، اسکے سینئر اور نئی نسل کے لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کانگریس سال 2014ء میں بی جے پی سے شکست کھانے کے چھ سال بعد ابھی بھی کوئی ایسا منصوبہ تلاش کررہی ہے، جس کے نتیجے میں قومی سطح پر اس پارٹی میں ایک نئی جان ڈالی جا سکے۔
بظاہر کانگریس ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس پارٹی کے 23 سینئر لیڈروں کی جانب سے جولائی میں سونیا گاندھی کے نام لکھے گئے اُس خط کے تناطر میں بلایا گیا تھا، جس میں پارٹی کا ایک فل ٹائم (کُل وقتی) سربراہ مقرر کرنے اور پارٹی کے اندر اصلاحات لانے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔یہ دونوں مطالبات جائز ہیں۔ سونیا گاندھی، جنہیں اُن کی صحت کے حوالے سے کئی مسائل درپیش ہیں، نے بطور عبوری صدر اپنی مقررہ معیاد 10 اگست کو پوری کرلی ہے۔ اب پارٹی کو لازمی طور پر ایک ایسے فل ٹائم سربراہ کی ضرورت ہے، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کر سکے۔
تاہم کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس، جو غور و فکر کے لئے بلایا گیا تھا، سینئر لیڈران اور راہل گاندھی کے حامیوں کے درمیان طاقت آزمائی کا کھیل بن کر رہ گیا۔ دراصل یہ سارا قصہ راہل گاندھی کے اُس بیان کی وجہ سے شروع ہوا، جس میں اُنہوں خط لکھنے والے پارٹی لیڈران کی نیت پر شک کی انگلی اٹھاتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ یہ لیڈران کانگریس پارٹی کے اندر بی جے پی کی گیم کھیل رہے ہیں۔چونکہ یہ بات میڈیا میں خوب اُچھالی گئی اور اس کی وجہ سے ملک کی اس قدیم پارٹی کی ساکھ متاثر ہوگئی۔
گو کہ پارٹی نے راہل کے اس بیان کی تردید کی لیکن خود راہل گاندھی نے اپنی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہوئے سرکردہ لیڈر کپل سبل کو فون کیا۔ کپل سبل کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے، کیونکہ اُنہیں میڈیا میں آئی ان خبروں کی وجہ سے ٹھیس پہنچی ہے۔ اس پر کپل سبل نے اپنی ناراضگی کا اظہار ایک ٹویٹ میں کیا۔ اس کے بعد ایک اور سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے بھی اپنے ٹویٹ میں واضح کیا کہ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اُن کا بی جے پی کے ساتھ کوئی رابطہ ہے تو وہ پارٹی چھوڑدیں گے۔