اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

کانگریس میں قیادت کے بحران پر سات گھنٹوں کا اجلاس - امیت اگنی ہوتری آرٹیکل

امیت اگنی ہوتری نے کانگریس پارٹی کی قیادت کو لے کر ہورہی سیاسی ہلچل کے بارے میں کہا ہے کہ بظاہر کانگریس ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس پارٹی کے 23 سینئر لیڈروں کی جانب سے جولائی میں سونیا گاندھی کے نام لکھے گئے اُس خط کے تناطر میں بلایا گیا تھا، جس میں پارٹی کا ایک فل ٹائم (کُل وقتی) سربراہ مقرر کرنے اور پارٹی کے اندر اصلاحات لانے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔یہ دونوں مطالبات جائز ہیں۔ سونیا گاندھی، جنہیں اُن کی صحت کے حوالے سے کئی مسائل درپیش ہیں، نے بطور عبوری صدر اپنی مقررہ معیاد 10 اگست کو پوری کرلی ہے۔ اب پارٹی کو لازمی طور پر ایک ایسے فل ٹائم سربراہ کی ضرورت ہے، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کر سکے۔

کانگریس میں قیادت کے بحران پر سات گھنٹوں کا اجلاس
کانگریس میں قیادت کے بحران پر سات گھنٹوں کا اجلاس

By

Published : Aug 25, 2020, 2:07 PM IST

کانگریس پارٹی کو درپیش چیلنجز، جن میں اسکی قیادت کا بحران بھی شامل ہے، پر غور فکر کےلئے بلایا گیا اجلاس جوں کی توں صورتحال برقرار رکھنے کے فیصلے پر منتج ہوا۔سونیا گاندھی تب تک بدستور پارٹی کی عبوری صدر رہیں گی، جب تک اُن کے بیٹے راہل گاندھی پارٹی کی لگام سنبھالنے کےلئے تیار نہیں ہوں گے۔ انتخابی عمل کےلئے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا اجلاس غیر متعینہ وقت پر بلایا جائے گا۔

اجلاس کے اس انجام پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا ہے، لیکن یہ بات بلا شبہ حیران کن ہے کہ کانگریس پارٹی کے بڑے لیڈروں کو اس طرح کا فیصلہ لینے کےلئے کانگریس ورکنگ کمیٹی کا سات گھنٹے طویل اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی، جبکہ یہ فیصلہ معمول کے پارٹی بیان میں بھی سُنایا جاسکتا تھا۔ آج دن بھر کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ورچیول میٹنگ میں جو کچھ بھی ہوا، ظاہر ہے کہ پارٹی کے منتظمین نے ہرگز اس کی خواہش نہیں کی ہوگی۔ کیونکہ کانگریس کے مخالفین کےلئے یہ بات باعث مسرت رہی ہوگی کہ پارٹی کی ورکنگ کمیٹی میں اختلاف رائے سامنے آگیا ہے، اسکے سینئر اور نئی نسل کے لیڈروں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اور کانگریس سال 2014ء میں بی جے پی سے شکست کھانے کے چھ سال بعد ابھی بھی کوئی ایسا منصوبہ تلاش کررہی ہے، جس کے نتیجے میں قومی سطح پر اس پارٹی میں ایک نئی جان ڈالی جا سکے۔

بظاہر کانگریس ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس پارٹی کے 23 سینئر لیڈروں کی جانب سے جولائی میں سونیا گاندھی کے نام لکھے گئے اُس خط کے تناطر میں بلایا گیا تھا، جس میں پارٹی کا ایک فل ٹائم (کُل وقتی) سربراہ مقرر کرنے اور پارٹی کے اندر اصلاحات لانے کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی تھی۔یہ دونوں مطالبات جائز ہیں۔ سونیا گاندھی، جنہیں اُن کی صحت کے حوالے سے کئی مسائل درپیش ہیں، نے بطور عبوری صدر اپنی مقررہ معیاد 10 اگست کو پوری کرلی ہے۔ اب پارٹی کو لازمی طور پر ایک ایسے فل ٹائم سربراہ کی ضرورت ہے، جو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کا مقابلہ کر سکے۔

تاہم کانگریس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس، جو غور و فکر کے لئے بلایا گیا تھا، سینئر لیڈران اور راہل گاندھی کے حامیوں کے درمیان طاقت آزمائی کا کھیل بن کر رہ گیا۔ دراصل یہ سارا قصہ راہل گاندھی کے اُس بیان کی وجہ سے شروع ہوا، جس میں اُنہوں خط لکھنے والے پارٹی لیڈران کی نیت پر شک کی انگلی اٹھاتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ یہ لیڈران کانگریس پارٹی کے اندر بی جے پی کی گیم کھیل رہے ہیں۔چونکہ یہ بات میڈیا میں خوب اُچھالی گئی اور اس کی وجہ سے ملک کی اس قدیم پارٹی کی ساکھ متاثر ہوگئی۔

گو کہ پارٹی نے راہل کے اس بیان کی تردید کی لیکن خود راہل گاندھی نے اپنی غلطی کو سدھارنے کی کوشش کرتے ہوئے سرکردہ لیڈر کپل سبل کو فون کیا۔ کپل سبل کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے، کیونکہ اُنہیں میڈیا میں آئی ان خبروں کی وجہ سے ٹھیس پہنچی ہے۔ اس پر کپل سبل نے اپنی ناراضگی کا اظہار ایک ٹویٹ میں کیا۔ اس کے بعد ایک اور سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے بھی اپنے ٹویٹ میں واضح کیا کہ اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ اُن کا بی جے پی کے ساتھ کوئی رابطہ ہے تو وہ پارٹی چھوڑدیں گے۔

واضح رہے کہ دونوں سینئر لیڈران آزاد اور سبل، نے بھی اُس خط پر دستخط کئے تھے، جو سونیا گاندھی کو بھیج دیا گیا تھا۔ ان دونوں لیڈروں کی وضاحت کا کانگریس کے منتظمین نے فائدہ اُٹھانے کی کوشش بھی کی۔ پارٹی منتظمین نے ان دو لیڈروں کے بیانات کے تناظر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ دراصل کانگریس پارٹی پر اصل کنٹرول ابھی بھی گاندھی خاندان کا ہی ہے اور وہ کانگریس کے ناراض لیڈروں کو منا بھی سکتا ہے اور پارٹی کو یکجٹ بھی رکھ سکتا ہے۔

سونیا گاندھی نے اجلاس کے بعد اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ اُنہیں پارٹی کے ساتھیوں کی وجہ سے ٹھیس پہنچی ہو گی لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ پارٹی کے اندر اختلافات رائے ہوتا ہے۔ لیکن آخر میں ہم سب اکھٹے ہیں۔ اجلاس میں ایک قرارداد کے متن پر سبھی شرکا نے دستخط کئے اور اس قرار داد کا متن گاندھی خاندان کی خواہش کے مطابق تحریر کیا گیا تھا۔

کانگریس ورکنگ کمیٹی اجلاس میں مخالفین نے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے پیٹھ پیچھے وار کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ دراصل اُن کا ارادہ سونیا گاندھی کے رُتبے کو چیلنج کرنا نہیں تھا بلکہ اُنہوں نے صرف پارٹی کو درپیش مسائل کے حل کرنے کی ضرورت اور پارٹی کے اندر ہر سطح پر اصلاحات لانے کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔روایت کے مطابق اجلاس کے شرکا نے سونیا گاندھی کو یہ اختیار دیا کہ وہ ضرورت پڑنے پر پارٹی کی اندر پھیر بدل کرسکتی ہیں۔

اجلاس میں راہل گاندھی کے حامیوں نے مطالبہ کیا کہ اُنہیں دوبارہ پارٹی سربراہ بنایا جانا چاہیے۔ اُن کے اس مطالبے کی آوازوں میں اُن لوگوں کی خواہشات دب گئی ہوگی جو پارٹی میں گاندھی خاندان سے باہر کسی کو سربراہ بنانے کی سرگوشیاں کررہے ہیں۔

سونیا گاندھی کے دیرینہ حامی احمد پٹیل نے راہل گاندھی سے اصرار کیا کہ وہ پارٹٰی میں اپنی ماں کی جگہ لے لیں۔ تاہم سربراہ کی تبدیلی کا معاملہ کسی دوسرے موقعے کےلئے چھوڑ دیا گیا۔ لیکن اندازہ یہی ہے کہ سربراہ کی تبدیلی روایتی طریقہ کار سے ہوگی، جس میں راہل گاندھی صدارتی عہدے کےلئے واحد اُمیدوار ہونگے لیکن اُن کا انتخاب چناوی عمل سے ہوگا۔راہل گاندھی نے کانگریس کی سربراہی دسمبر 2017ء میں سنبھالی تھی لیکن مئی 2019ء کے انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد اُنہوں نے اپنا عہدہ چھوڑ دیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ فی الوقت قیادت کے معاملے پر اٹھا شور و غم تھم گیا ہے لیکن کانگریس کےلیے 23 سینئر لیڈران کے اُن خدشات کو نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا، جو اُنہوں نے نیک نیتی کے ساتھ اپنے مشترکہ خط میں بیان کئے ہیں۔ پارٹی کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ پارٹی نے قیادت کے بحران کو گاندھی خاندان کے خلاف ایک پروپگنڈا قرار دیا تھا۔ پارٹی نے لیڈروں پر بھی زور دیا ہے کہ وہ پارٹی کے اندرونی مسائل کا کھلے عام اظہار کرنے سے گریز کریں۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details