اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

ہند چین مخاصمت کے درمیان پاکستان کا کردار

پروفیسر جئے کمار ورما نے چین اور بھارت کے مابین تنازعہ پر کہا ہے کہ پاکستان نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت پاکستان کی سرحدوں پر تناؤ پیدا کیا پاکستان نے چین کو خوش کرنے کے لیے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں پورے جموں و کشمیر ، گجرات (ہندوستان) کے جونا گڑھ کو دکھایا گیا۔ابتداء میں عمران خان نے سوچا تھا کہ چین بھارت کو زیر کردے گا اور اسے اس صورتحال سے اندرون ملک مدد ملے گی لیکن نہ تو چین اور نہ ہی پاکستان کو بھارت کی طرف سے اس طرح کے سخت ردعمل کی توقع تھی اور نہ ہی ان دونوں ملکوں کو اس بات کی توقع تھی کہ بھارت کو اس قدر بین الاقوامی حمایت حاصل ہوگی۔ اب یہ کم و بیش یقین ہے کہ چین مکمل جنگ نہیں لڑے گا اور چین اور ہندوستان دونوں اپنی افواج واپس لے لیں گے۔

ہند چین مخاصمت کے درمیان پاکستان کا کردار
ہند چین مخاصمت کے درمیان پاکستان کا کردار

By

Published : Aug 24, 2020, 6:18 PM IST

چین کے صدر شی جنپنگ چین کو ایک عالمی طاقت( سپر پاور) بنانے کے لئے اتاولے نظر آرہے ہیں۔ چینی معاشی ترقی حیرت انگیز ہے ، اب بڑی تعداد میں دیگر ممالک چینی مصنوعات پر منحصر ہیں اور وہ دنیا کی متعدد قائم معیشتوں کو پیچھے چھوڑنے کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔

چین بھارت سے اس لئے ناخوش تھا کیونکہ ہندوستان نے شی جنپنگ کےخواب بیلپ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (علااقائی شاہرہ پہل) میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے اور یہ شاہراہ ایشیا ، افریقہ ، یورپ ، مشرق وسطی اور امریکہ سے گزرتی ہے۔ چین ایک توسیع پسند ملک ہونے کے ناطے‘‘ بی آر آئی‘‘(علااقائی شاہرہ پہل’’ کے ذریعہ اپنا اثر و رسوخ کئی گنا بڑھادیا ہے جبکہ وہ سری لنکا میں ہمبنٹوٹا بندرگاہ اور پاکستان میں گوادر پر بندرگاہیں قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔۔

علاقائی شاہراہ پہل(بی آر آئی) کے علاوہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو اہم ارکان پارلیمان نے مئی میں تائیوان کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور جون میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کوجی ۔7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جبکہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ہندوستان، چین کے تعلقات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ جون میں ایک بار پھر ، مودی کو آسٹریلیائی وزیر اعظم سکاٹ ماریسن کے ساتھ ایک مجازی اجلاس منعقد کیا تھا جو چین کو ناخوشگوار معلوم ہوئی ۔ چین اور آسٹریلیا کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ مؤخر الذکر چین پرکورونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگا رہا ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ بھارت آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر امریکہ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔

چین اپنی معاشی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا لہذا جنوبی چین کے سمندر میں اپنی طاقت ظاہر کرنے کے علاوہ ، تائیوان ، ویتنام اور جاپان کو خوفزدہ کیا۔چین ہندوستانی علاقوں میں داخل ہوا اور ہندوستان کو بے عزت کرنے کے مذموم ارادے کے ساتھ کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوا۔۔چینی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) نے وادی گلوان میں تجاوزات بھی کیں ۔اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوول کی متعدد کمانڈر سطح کی بات چیت اور مذاکراتی عمل کے بعد بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کی افواج اپنے اصل مقامات پر جائیں گی۔ چینی فوج نے کچھ علاقوں میں پسپائی اختیار کرلی ، لیکن انحطاط کا عمل مکمل نہیں ہوا ، اور چین کچھ ایسے علاقوں پر قابض رہا جہاں ماضی میں ہندوستانی فوج گشت کرتی آرہی تھی۔

دریں اثنا ، پاکستان جس کو ہندوستان کے ساتھ بے انتہا عدوات ہے اور چین کی طرف سے متعدد احسانوں تلا دبا ہوا ہے،اس نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور،بھارت پاکستان کی سرحدوں پر تناؤ پیدا کیا۔ پاکستانی فوج نے متعدد مقامات پر گولہ باری کا آغاز کیا جہاں انہوں نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا۔ جون 2020 میں سرحدی حفاظتی فورس (بی ایس ایف) نے ایک پاکستانی ڈرون کو مار گرایا۔یہ ڈراون پاکستانی خفیہ سراغ رساں ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے تعاون سے انتہا پسندوں کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود لے کر جارہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جون میں جنگ بندی میں ڈیڑھ سو خلاف ورزیاں ہوئیں۔ پاکستان نے بھاری فائرنگ کی پشت پناہی میں جنگجوئوں کی دراندازی کی متعدد کوششیں بھی کیں۔

اسی اثناء میں 4 اگست 2020 کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں پورے جموں و کشمیر ، گجرات (ہندوستان) کے جونا گڑھ کو دکھایا گیا۔ عمران خان نے 4 اگست کا اس لئے انتخاب کیا کہ جو جموں و کشمیر سے دفعہ370 کی تنسیخ کی پہلی برسی سے ایک دن پہلے تھا۔ دفعہ370 کی تنسیخ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ریاست کو لداخ اور جموں کشمیرمیں بھی تقسیم کردیا گیا اوردونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں براہ راست مرکزی سرکار حکومت کرتی ہے۔

عمران حکومت نے پاکستانی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ نقشہ جاری کیا جبکہ عمران خان کی سربراہی والی موجودہ حکومت کی عوامی سطح پر بہت تنقید ہو رہی تھی کیونکہ جب وہ دفعہ 370 کو کالعدم قرار دیا گیا تو وہ ہندوستان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ اسلام آباد نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ موجودہ سیاسی نقشہ ہندوستان کی جانب سے دفعہ370 کو منسوخ کرنے کی کارروائی کا صحیح ردعمل ہے۔ عمران خان نے یہ بھی بتایا کہ نیا نقشہ جسے پاکستانی کابینہ نے منظور کیا ہے وہ پاکستانی اسکولوں کے نصاب کا حصہ بن جائے گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی نئے نقشہ کے معاملے کو سراہا اور اسے ‘‘بے مثال اقدا’’قرار دیا۔ وزارت خارجہ نے مختصر پریس ریلیز میں سخت الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سیاسی بے ہودگی کی ایک مشق ہے ، جس میں ہماری ہندوستانیی ریاست گجرات اور مرکزی زیر انتظام والے علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقوں پر ناقابل دعوے کیے گئے ہیں۔ ان مضحکہ خیز دعوؤں کی نہ تو قانونی صداقت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی ساکھ۔ ہے’’۔

پاکستان 5 اگست کو یا اس کے آس پاس کشمیر میں کچھ بڑی دہشت گردی کی سرگرمیاں انجام دینا چاہتا تھا لیکن ناکام رہا کیونکہ ہندوستانی سیکیورٹی فورسز نے جیش محمد ، لشکر طیبہ ، انصار غزوۃ الہند اور حزب المجاہدین کے اعلی کمانڈروں سمیت بڑی تعداد میں جنگجوئوں آپریشن ‘‘آل آؤٹ’’ اور‘‘ محاصروں و تلاشیوں کے آپریشن’’ کے تحت کا قلع قمع کردیا ۔ اطلاعات کے مطابق 300 کے قریب آئی ایس آئی کے تربیت یافتہ دہشتگرد بھارت پاکستان سرحد پر دراندازی کا انتظار کر رہے ہیں ، تاہم وہ ہندوستانی سیکیورٹی فورسز کی سخت چوکسی کی وجہ سے دراندازی کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔

پاکستان نے بھی نقشہ جاری کرکے چین کو خوش کیا جو بھارت کے خلاف ہے کیونکہ ہندوستان اور چین دونوں کی افواج سرحدوں پر محاذ آرائی کی پوزیشن میں ہیں۔ جولائی15 /16 کو دونوں ممالک کی افواج کا مقابلہ ہوا جس میں ایک کرنل سمیت 20 ہندوستانی فوجی جان بحق ہوگئے۔ اگرچہ چین نے اعداد و شمار ظاہر نہیں کیے تھے لیکن جانکاری کے ذرائع کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی( پی ایل اے) نے ایک افسر سمیت 40 سے زیادہ فوجیوں کو کھو دیا ہے۔

نیپال نےپاکستان کی نقل کی اورہمالیائی ریاست نے چین کے کہنے پر ایک نقشہ بھی جاری کیا جس میں لمپیادھورا ، لیپولک اور کالا پانی کے ہندوستانی علاقوں کو نیپال کا ایک حصہ دکھایا گیا ۔ اسلام آباد نے بھی نقشہ میں شاکسگام ویلی اور اکسائی چن کی نمائش نہیں کی ہے کیونکہ ان علاقوں پر چین کا قبضہ ہے۔

تاہم ، اسلام آباد کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ معاشی بحران سے گذر رہا ہے اور وہ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور چین کی طرف سے دیئے گئے قرضوں اور امداد پر زندہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ذریعہ منظور کردہ قرض مشکل میں ہے کیونکہ پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ’گرے لسٹ‘ میں ہے اور اگر وہ دہشت گردی کی تنظیموں کی مدد کرنا اور روکنا بند نہیں کرے گا تو اسے‘‘بلیک لسٹ’’ میں ڈال دیا جائے گا۔

چین ایک توسیع پسند ملک ہے اور اگر پاکستان اس قرض کی ادائیگی میں ناکام رہا ہے تو ، چین اپنے غیر منقولہ اثاثوں پر قبضہ کرسکتا ہے جس میں گوادر کے بندرگاہ ، بلوچستان کے معدنی وسائل اور گلگت اور بلتستان کی قابل کاشت اراضی شامل ہوسکتی ہے۔

چین کی بھارت کو دھمکانے کی کوششیں ناکام ہوگئیں ، اور دہلی نے واضح کیا کہ بیجنگ کو اپریل 2020 کی اصل پوزیشن پر واپس آنا چاہئے۔ ہندوستان نے نہ صرف اپنی فوج تعینات کی ، بلکہ فضائیہ کے طیارے بھی اگلےعلاقوں میں کھڑے کیں۔ فرانس نے ہندوستان کی درخواست پر بھارت کو شیڈول سے قبل پانچ رافیل لڑاکا طیارے فراہم کیے۔ امریکہ ، ویتنام ، جاپان ، آسٹریلیا ، امریکہ اور تائیوان سمیت متعدد ممالک نے ہندوستان کی حمایت میں توسیع کی۔ لہذا چین پیچھے ہٹ جائے گا حالانکہ اسے مکمل بازیافت سے قبل کچھ اور وقت لگ سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی دعوی ہے کہ صدر شی جنپنگ کو ملک میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور انہوں نے عوام کی توجہ کو روزانہ مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہندوستان پر حملہ کیا۔

ابتداء میں عمران خان نے سوچا تھا کہ چین بھارت کو زیرکردے گا اور اسے اس صورتحال سے اندرون ملک مدد ملے گی لیکن نہ تو چین اور نہ ہی پاکستان کو بھارت کی طرف سے اس طرح کے سخت ردعمل کی توقع تھی اور نہ ہی ان دونوں ملکوں کو اس بات کی توقع تھی کہ بھارت کو اس قدر بین الاقوامی حمایت حاصل ہوگی۔ اب یہ کم و بیش یقین ہے کہ چین مکمل جنگ نہیں لڑے گا اور چین اور ہندوستان دونوں اپنی افواج واپس لے لیں گے۔

پاکستان بین الاقوامی سطح پر بھارت کی مذمت کرنے میں ناکام رہا جب دفعہ 370 کو کالعدم قرار دیا گیا لہذا اسلام آباد کو ملک میں داخلی تنازعات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہندوستان اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنی چاہئے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی متعدد تنظیمیں ہیں اور حال ہی میں بلوچ اور سندھی قوم پرستوں نے آپس میں ہاتھ ملایا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھارت کے خلاف چین کا رخ کرنے کے بجائے اپنی معاشی اور امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہئے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details