چین کے صدر شی جنپنگ چین کو ایک عالمی طاقت( سپر پاور) بنانے کے لئے اتاولے نظر آرہے ہیں۔ چینی معاشی ترقی حیرت انگیز ہے ، اب بڑی تعداد میں دیگر ممالک چینی مصنوعات پر منحصر ہیں اور وہ دنیا کی متعدد قائم معیشتوں کو پیچھے چھوڑنے کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن گیا۔
چین بھارت سے اس لئے ناخوش تھا کیونکہ ہندوستان نے شی جنپنگ کےخواب بیلپ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (علااقائی شاہرہ پہل) میں شامل ہونے سے انکار کردیا ہے اور یہ شاہراہ ایشیا ، افریقہ ، یورپ ، مشرق وسطی اور امریکہ سے گزرتی ہے۔ چین ایک توسیع پسند ملک ہونے کے ناطے‘‘ بی آر آئی‘‘(علااقائی شاہرہ پہل’’ کے ذریعہ اپنا اثر و رسوخ کئی گنا بڑھادیا ہے جبکہ وہ سری لنکا میں ہمبنٹوٹا بندرگاہ اور پاکستان میں گوادر پر بندرگاہیں قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔۔
علاقائی شاہراہ پہل(بی آر آئی) کے علاوہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو اہم ارکان پارلیمان نے مئی میں تائیوان کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی اور جون میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے وزیر اعظم مودی کوجی ۔7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جبکہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ہندوستان، چین کے تعلقات کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ جون میں ایک بار پھر ، مودی کو آسٹریلیائی وزیر اعظم سکاٹ ماریسن کے ساتھ ایک مجازی اجلاس منعقد کیا تھا جو چین کو ناخوشگوار معلوم ہوئی ۔ چین اور آسٹریلیا کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں کیونکہ مؤخر الذکر چین پرکورونا وائرس کے پھیلاؤ کا الزام لگا رہا ہے۔ چین کو لگتا ہے کہ بھارت آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور پر امریکہ کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔
چین اپنی معاشی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اپنی فوجی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا لہذا جنوبی چین کے سمندر میں اپنی طاقت ظاہر کرنے کے علاوہ ، تائیوان ، ویتنام اور جاپان کو خوفزدہ کیا۔چین ہندوستانی علاقوں میں داخل ہوا اور ہندوستان کو بے عزت کرنے کے مذموم ارادے کے ساتھ کچھ علاقوں پر قابض بھی ہوا۔۔چینی فوج (پیپلز لبریشن آرمی) نے وادی گلوان میں تجاوزات بھی کیں ۔اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ قومی سلامتی صلاح کار اجیت ڈوول کی متعدد کمانڈر سطح کی بات چیت اور مذاکراتی عمل کے بعد بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ممالک کی افواج اپنے اصل مقامات پر جائیں گی۔ چینی فوج نے کچھ علاقوں میں پسپائی اختیار کرلی ، لیکن انحطاط کا عمل مکمل نہیں ہوا ، اور چین کچھ ایسے علاقوں پر قابض رہا جہاں ماضی میں ہندوستانی فوج گشت کرتی آرہی تھی۔
دریں اثنا ، پاکستان جس کو ہندوستان کے ساتھ بے انتہا عدوات ہے اور چین کی طرف سے متعدد احسانوں تلا دبا ہوا ہے،اس نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور،بھارت پاکستان کی سرحدوں پر تناؤ پیدا کیا۔ پاکستانی فوج نے متعدد مقامات پر گولہ باری کا آغاز کیا جہاں انہوں نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا۔ جون 2020 میں سرحدی حفاظتی فورس (بی ایس ایف) نے ایک پاکستانی ڈرون کو مار گرایا۔یہ ڈراون پاکستانی خفیہ سراغ رساں ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے تعاون سے انتہا پسندوں کے لئے اسلحہ اور گولہ بارود لے کر جارہا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جون میں جنگ بندی میں ڈیڑھ سو خلاف ورزیاں ہوئیں۔ پاکستان نے بھاری فائرنگ کی پشت پناہی میں جنگجوئوں کی دراندازی کی متعدد کوششیں بھی کیں۔
اسی اثناء میں 4 اگست 2020 کو پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ایک نیا سیاسی نقشہ جاری کیا جس میں پورے جموں و کشمیر ، گجرات (ہندوستان) کے جونا گڑھ کو دکھایا گیا۔ عمران خان نے 4 اگست کا اس لئے انتخاب کیا کہ جو جموں و کشمیر سے دفعہ370 کی تنسیخ کی پہلی برسی سے ایک دن پہلے تھا۔ دفعہ370 کی تنسیخ نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ریاست کو لداخ اور جموں کشمیرمیں بھی تقسیم کردیا گیا اوردونوں مرکزی زیر انتظام والے علاقوں میں براہ راست مرکزی سرکار حکومت کرتی ہے۔
عمران حکومت نے پاکستانی عوام کو مطمئن کرنے کے لئے یہ نقشہ جاری کیا جبکہ عمران خان کی سربراہی والی موجودہ حکومت کی عوامی سطح پر بہت تنقید ہو رہی تھی کیونکہ جب وہ دفعہ 370 کو کالعدم قرار دیا گیا تو وہ ہندوستان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے میں ناکام رہی۔ اسلام آباد نے یہ تاثر پیش کیا ہے کہ موجودہ سیاسی نقشہ ہندوستان کی جانب سے دفعہ370 کو منسوخ کرنے کی کارروائی کا صحیح ردعمل ہے۔ عمران خان نے یہ بھی بتایا کہ نیا نقشہ جسے پاکستانی کابینہ نے منظور کیا ہے وہ پاکستانی اسکولوں کے نصاب کا حصہ بن جائے گا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی نئے نقشہ کے معاملے کو سراہا اور اسے ‘‘بے مثال اقدا’’قرار دیا۔ وزارت خارجہ نے مختصر پریس ریلیز میں سخت الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ "یہ سیاسی بے ہودگی کی ایک مشق ہے ، جس میں ہماری ہندوستانیی ریاست گجرات اور مرکزی زیر انتظام والے علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ کے علاقوں پر ناقابل دعوے کیے گئے ہیں۔ ان مضحکہ خیز دعوؤں کی نہ تو قانونی صداقت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی ساکھ۔ ہے’’۔