اردو

urdu

UP Assembly Election 2022: کرہل سیٹ پر دلچسپ مقابلہ، اکھلیش کے لیے کرہل سیٹ فتح کرنا آسان نہیں ہوگا

By

Published : Jan 31, 2022, 10:50 PM IST

یادو اکثریت ضلع مین پوری کی کرہل اسمبلی سیٹ Karhal Assembly Seat سے پیر کو سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کے پرچہ نامزدگی کے کچھ ہی دیر بعد مرکزی مملکتی ویزر ستیہ پال سنگھ بگھیل کا اسی سیٹ سے پرچہ نامزدگی کے ساتھ بی جے پی نے صاف اشارہ دے دیا ہے کہ تاریخی جیت کی توقع لگائے ایس پی سربراہ کو اس کی طرف سے’واک اوور‘ نہیں بلکہ سخت مقابلہ ملنے والا ہے۔ SP Singh Baghel vs Akhilesh Yadav

SP Singh Baghel vs Akhilesh Yadav in Karhal seat
کرہل سیٹ سے اکھلیش یادو اور بی جے پی سے ایس پی سنگھ امیدوار

اکھلیش نے آج کرہل اسمبلی حلقے Karhal Assembly Seat سے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کر دیا۔ پہلے ایسے امکانات تھے کہ بی جے پی اس سیٹ سے اکھلیش کو واک اوور دینے کی تیاری میں ہے لیکن دوپہر بعد مرکزی مملکتی وزیر و آگرہ سے ایم پی ایس پی سنگھ بگھیل SP Singh Baghel اپنا پرچہ نامزدگی داخل کرنے پہنچ گئے۔اب کرہل اسمبلی سیٹ پر سخت اور دلچسپ مقابلے کی توقع ہے۔SP Singh Baghel vs Akhilesh Yadav

اکھلیش کے مقابلے بی جے پی نے مملکتی وزیر کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وہ کبھی اکھلیش کے والد ملائم سنگھ یادو کے سیکورٹی افسر بھی رہ چکے ہیں۔

UP Assembly Election 2022

اکھلیش مین پوری ہیڈکوارٹر سے جیسے ہی نامزدگی کر کے باہر واپس نکلے ویسے ہی بی جے پی امیدوار کے طور پر ایس پی سنگھ بگھیل بھی اپنا پرچہ داخل کرنے پہنچ گئے۔UP Assembly Election 2022

بگھیل کی نامزدگی کے بعد بی جے پی کے مقامی اور ریاستی سطح کے لیڈران پرجوش نظر آئے۔ سال 2002 کے علاوہ بی جے پی کبھی بھی کرہل اسمبلی حلقے پر جیت نہیں درج کرسکی ہے۔ کرہل کی اسمبلی سیٹ کو ایس پی یا پھر ملائم سنگھ یادو کنبے کے لیہے ناقابل تسخیر اور زندگی بخش مانا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: UP Assembly Election 2022: اکھلیش نے کرہل سے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اکھلیش یادو کہتے ہیں’ کرہل نیتا جی(ملائم سنگھ یادو) کی تعلیمی و سیاسی کام کی زمین رہی ہے۔ یہاں کے عوام نیتا جی کو نہ صرف پسند کرتے ہیں بلکہ ان کے کنبے سے بھی ان کا بے حد والہانہ لگاؤ رہا ہے اور اسی وجہ سے جب جب یہاں الیکشن ہوتے ہیں تو ایس پی امیدواروں کو ریکارڈ ووٹوں سے جیت حاصل ہوئی ہے۔ کرہل کا الیکشن یہاں کے عوام لڑیں گے اور ریکارڈ ووٹوں سے جیت درج کر کے ان کو اسمبلی بھیجنے کا کام کریں گے۔

چونکہ اسمبلی انتخابات کی وجہ سے ان کو ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی جانا پڑے گا اس لیے انہوں نے اپنے الیکشن کو عوام کے حوالے کر دیا ہے۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ان کو کتنے ووٹوں سے کامیا ب کر کے اسمبلی بھیجتے ہیں۔

اٹاوہ سے مین پوری تک سماج وادیوں کا قلعہ مانا جاتا ہے۔ علاقے میں ملائم سنگھ کے کنبے کا بڑا رسوخ دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ بی جے پی کی عوامی حمایت یہاں بے حد کم ہے۔

کرہل سیٹ سے اکھلیش یادو اور بی جے پی سے ایس پی سنگھ امیدوار

کرہل سیٹ کی سیاست کا آغاز اور اس سے پہلے بھی یہ حلقہ ملائم سنگھ یادو کے کام کی سر زمین رہا ہے۔ نیتا جی کا آبائی ضلع اٹاوہ بھی اس سے نزدیک ہی ہے۔ اکھلیش حکومت کے میعاد کار میں تعمیر شدہ آگرہ۔ لکھنؤ ایکسپریس وے بھی اس علاقے کے درمیان سے ہی گزرتا ہے۔

مین پوری کے کرہل سے ہی ملائم سنگھ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا اور جس جین انٹر کالج سے وہ پڑھے لکھے بعد میں وہیں ٹیچر ہوگئے۔ یہیں سے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا اور اب اکھلیش یہیں سے اپنا پہلا اسمبلی الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔

اکھلیش نے کہا کرہل اسمبلی حلقہ نیتا جی کے حلقے میں آتا ہے گھر کے نزدیک کا علاقہ ہے عوام کا شکریہ اور پارٹی کے لوگوں کو شکریہ کہ مجھے موقع دے رہے ہیں۔ترقی کے معاملے میں کرہل اسمبلی حلقہ ایک مثال بنے گا۔

یہ بھی پڑھیں: Analytical Report on UP Assembly Elections 2022: اکھلیش یادو یوگی کے خلاف مضبوط دعویدار کے طور پر کیسے ابھرے؟

کرہل میں تین لاکھ 71 ہزار ووٹر ہیں، جن میں یادو ایک لاکھ 44 ہزار، شاکیہ 35 ہزار، چھتریہ 25 ہزار، لودھی 11 ہزار، مسلم 14 ہزار، برہمن 14 ہزار، جاٹ 34 ہزار ہیں۔

بی جے پی شروع سے ہی اکھلیش پر اپنے لیے محفوظ سیٹ منتخب کرنے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ اکھلیش کے چچا اور سپا کے جنرل سکریٹری رام گوپال یادو نے دعویٰ کیا کہ اکھلیش کرہل سے ایک لاکھ 60 ہزار ووٹوں سے جیتیں گے۔ تو اب انتظار کریں۔

اکھلیش یادو پہلی بار سال 1999 میں قنوج پارلیمانی سیٹ سے ایم پی منتخب ہوئے تھے اور تب سے ان کی پارلیمانی اننگ قنوج فیروز آباد سے ہوتے ہوئے اعظم گڑھ تک جاری ہے۔

کرہل سیٹ سے اکھلیش یادو اور بی جے پی سے ایس پی سنگھ امیدوار

ایس پی سنگھ بگھیل کا سیاسی سفر

دوسری طرف ضلع مین پوری کی کرہل اسمبلی سیٹ سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اترنے والے ایس پی سنگھ بگھیل کی سیاسی اننگز بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔

پروفیسر بگھیل اتر پردیش کے ضلع اوریا کے بھٹ پورہ کے رہنے والے ہیں جو کبھی اتر پردیش پولیس میں سب انسپکٹر کے طور پر تعینات تھے۔ 1989 میں جب ملائم سنگھ یادو وزیر اعلیٰ بنے تو وہ ان کی سیکورٹی میں شامل ہوئے۔

بگھیل سے متاثر ملائم سنگھ یادو نے انہیں پہلی بار 1998 میں جلیسر سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار کے طور پر میدان میں اتارا تھا۔ یہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ دو بار ایم پی منتخب ہوئے۔ 2010 میں بی ایس پی نے انہیں راجیہ سبھا بھیجا تھا۔

2014 میں، بگھیل نے راجیہ سبھا سے استعفیٰ دے دیا اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلیا۔ 2017 میں، ٹنڈلا(ریزرو) نشست سے بی جے پی کے ایم ایل اے بنے۔ اس کے بعد انہیں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی ٹیم میں شامل کر لیا گیا۔

2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے انہیں آگرہ لوک سبھا حلقہ سے ٹکٹ دیا تھا۔ یہاں سے جیت کر وہ مرکزی وزیر بن گئے۔

سال 2017 کے انتخابات میں کرہل اسمبلی پر کل 49.57 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ یہاں ایس پی کے سبرن سنگھ یادو کو 1 لاکھ 4 ہزار 221 ووٹ ملے تھے وہیں بی جے پی کے رام شاکیہ کو 65 ہزار 816 ووٹ ملے تھے ۔ بی ایس پی کے دلویر تیسرے نمبر پر رہے، جنھیں 29 ہزار 676 ووٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔

نتائج جو بھی ہوں لیکن ایس پی سنگھ بگھیل کے ذریعے بھارتیہ جنتا پارٹی میں ایک بڑا ٹرمپ کارڈ ضرور پھینکا ہے جس کے ذریعے بی جے پی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ اکھلیش یادو کو گھیرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن اکھلیش یادو نے واضح کر دیا ہےانہیں اپنی جیت کا یقین ہے۔اب ووٹوں کی گنتی تک یہ دلچسپی برقرار رہے گی۔

یو این آئی

ABOUT THE AUTHOR

...view details