متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین 13 اگست 2020 کو مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے اور ان کے باہمی تعلقات کو "معمول پر لانے" کے لئے ابراہیم معاہدہ مغربی ایشیا میں ہزار سال کی تنائو صورتحال کو کم کرنے کے تناظر میں پہلا اہم قدم ہے ۔ عرب اسرائیلی تعلقات میں تازہ ترین پیشرفت بھارت کو بھی اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کا قریبی شراکت دار فراہم کرنے کا موقع کرتی ہے جو ، مغربی ایشین خطے میں ایک اہم کھلاڑی بننے کا موقع ہے ۔عرب اسرائیل تعلقات میں سات دہائیوں سے جو تلخی ہے اس کو بھی اس معاہدے سے ممکنہ طور پر پرامن طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے۔
اس معاہدے میں قوی صلاحیت موجود ہے ، جو عملی طور پر متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ ، محمد بن زاید النہیان ، اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاھو کے مابین خطے کی متضاد سیاست کو حقیقت میں بدلنے کیلئے ہوا اور دونوں لیڈروں نے اس پر دستخط کئے ہیں ۔مزید اگر اس کوعرب اقوام کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بجائے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مابین بات چیت کے سلسلے میں پیش رفت کی کوششوں کوبحال کرنے کے طور پر دیکھنا چاہے ، حالانکہ فلسطینی ریاست کے امکانات دور نظر آتے ہیں۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات کے سب سے بڑے علاقائی اتحادی ، سعودی عرب نے یہ شرط عائد کی ہے کہ وہ اس طرح کے معاہدے پر دستخط کرنے پر اس وقت غور کرے گا جب فلسطین کی ریاست حقیقت میں بن جاتی ہے ،تاہم اس میں کچھ شک نہیں کہ ریاض کو اس مخمصےمیں رکھا گیا ہے۔
یہ معاہدہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے معاملے میں بھی اتنا ہی اہم کام کریں گا، جو مصر اور اردن جن کے ساتھ اسرائیل نے کئی دہائیوں قبل معاہدوں پر دستخط کرکے کیا تھا۔ ایک اور بڑے عرب ملک کی نظر میں اسرائیل کو فلسطین کے مسئلے پر گفت و شنید کیلئے سامنے لائے گا۔
بھارت نے جولائی 2017 میں اس عمل( دو ملکوں کے درمیان تلیخ تعلقات کا باہیمی تصفیہ) کو مکمل کیا جب وزیر اعظم نریندر مودی نے اسرائیل کا دورہ کیا ، جو کسی بھارتی وزیر اعظم کا اس ملک کا پہلا دورہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فلسطین کا دورہ نہیں کیا ، اس طرح دونوں ریاستوں کے بارے میں بھارتی پالیسی کو واضح طور پر غیر متزلزل کردیا اور اس ابہام کو ختم کیا جس نے 1992 میں اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو آگے بڑھانے کی خصوصیت کا مظاہرہ کیا تھا جب سے دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ فطرت میں محیط اور اسٹریٹجک اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بھی انہیں "توازن" رکھنے کی بہت کم کوشش کی جا رہی ہے۔
اس کے ساتھ ابراہیم معاہدہ پر فلسطینی اتھارٹی کو لگتا ہے کہ انہیں ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا گیا، کیونکہ اس کے حلیف آہستہ آہستہ اس سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے بارے میں کیا رد عمل ظاہر ہوگا، یہ دیکھنا باقی ہے ، لیکن فلسطینی اتھارٹی نے امریکی حمیات یافتہ معاہدے کو مسترد کردیا ہے جسے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاھو نے کہا ہے کہ "گذشتہ 26 سالوں میں اسرائیل اور عرب دنیا کے مابین امن کی بحالی کے لئے یہ سب سے بڑی پیشرفت ہے۔" اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اسرائیل کو اب مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید ناکہ بندی اور بستیوں کی تعمیر کے اپنے منصوبوں کو معطل کرنا ہوگا ، جس کو حالیہ مہینوں میں اس خطے کو بدستور برقرار رکھا تھا کہ فلسطینیوں کے مظاہروں کو سختی کے ساتھ کچل دیا تھا۔