ہم اس برس عالمی یوم خواتین کووِڈ 19 کے دوران منا رہے ہیں اور ہم اُن خواتین کے مشکور ہیں، جنہوں نے اس وبا کے دوران دن رات محنت کرتے ہوئے اپنی پیشہ وارانہ اور گھریلو زندگیوں میں ایک توازن بنائے رکھا اور ساتھ ہی کئی مریضوں کی دیکھ بھال بھی کی۔ اسی پس منظر میں ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا پینل نے چند خواتین ڈاکٹرز کا انٹرویو کیا۔ پیش ہیں ان انٹرویوز کے اقتباسات:
بھارتی سماج میں خواتین کو اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلانے میں کافی وقت لگا۔ ہمارے سماج میں مرد کو برتری کا پاٹ پڑھایا جاتا رہا ہے لیکن اب خواتین کو یکساں حقوق ملنے لگے ہیں اور وہ خود کو با اختیار کرنے کے لئے آوازیں بلند کرنے لگیں۔ آج آٹھ مارچ جب ہم عالمی یوم خواتین منارہے ہیں، اقوام متحدہ نے اس دن کی مناسبت سے 'خواتین کی قیادت: دُنیا میں کووڈ-19 کے دوران یکساں مستقبل کا ہدف حاصل کیا' کا عنوان دیا ہے۔
ہم آج کے دن کی مناسبت سے خواتین ڈاکٹروں کی اُس ٹیم کو مبارکباد دینا چاہتے ہیں، جو ای ٹی وی بھارت کے سُکھی بھاوا کے ساتھ گزشتہ تقریباً ایک سال سے جڑی ہوئی ہیں۔ کووِڈ-19 کے دوران ان میں سے بعض نے ہسپتالوں میں صفِ اول کے کارکنوں کی حیثیت سے کام کیا اور رات دن وبا سے متاثرہ مریضوں کی دیکھ بھال کی۔ ان میں بعض خواتین پس منظر میں کام کررہی تھیں۔ وہ لوگوں کی دماغی صحت کا خیال رکھ رہی تھیں اور اُن تک اس وبا کے بارے میں اور اس سے نمٹنے کے موضوع پر اُن تک حقائق پہنچانے کا کام کررہی تھیں۔ ہم نے ان میں چند ایک کے ساتھ بات چیت کی، جس میں اُنہوں نے بتایا کہ وبا پھوٹنے کے بعد اُن کے کیا تجربات رہے اور اُنہیں کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر راجیہ لکھشمی مدھاورن، جو آرویدا میں ایم ڈی ہیں اور آیورویدیک میڈیکل کالج حیدرآباد میں پروفیسر ہیں، نے بتایا 'ایک آیور ویدیک ڈاکٹر کی حیثیت سے میں نے کئی مشکلات کا سامنا کیا کیوں کہ آن لائن کنسلٹیشن کے دوران مریضوں کو جسمانی جانچ جیسے کہ دل کی دھڑکن چانچنے وغیرہ سے قاصر تھے اور اس کے نتیجے میں ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں دقت آرہی تھی۔ ہم اپنے مریضوں کو خون، پیشاب یا دوسرے ٹیسٹ کروانے کے لئے لیبارٹریز میں جانے کا مشورہ بھی نہیں دے پاتے تھے۔ اس کے علاوہ ادویات کی عدم دستیابی اور مریضوں کی پنچکرما تھرپیز کرانے سے بھی ہم قاصر تھے اور دیرینہ امراض کا شکار مریضوں کی ٹھیک طرح سے مدد نہیں کرپا رہے تھے اور اس طرح سے علاج ومعالجے میں دقتیں پیش آرہی تھیں۔'
چونکہ اس وبا کے دوران نفسیاتی صحت بری طرح متاثر رہی اور اس صورت حال میں بھی مریضوں کی ٹیلی فون یا آن لائن تشخیص کرنی پڑتی تھی۔ یہ عمل دشوار گزار تھا۔
دہرہ دون میں کنسلٹنٹ کلینکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر وینا کرشنن کا کہنا ہے، 'مجھے طبی صلاح و مشورے کے لئے اچانک فونز کالز آتی تھیں۔ چونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ادویات میسر نہیں تھیں، اس لئے کئی مریضوں کی حالت دوبارہ بگڑ گئی اور انہیں شدید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں سارے مریضوں سے نمٹنا مشکل عمل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم رابطہ کرنے والے سارے مریضوں کی مدد کرتے رہے۔ جب ہم مریض کو اپنے سامنے دیکھتے ہیں اور اس کا ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں اُن کی تشخیص کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے جبکہ آن لائن تشخیص کے دوران ہمیں صرف اُن اطلاعات پر انحصار کرنا پڑتا تھا، جو وہ اپنی بیماری کے بارے میں بتا پا رہے تھے۔