کیا عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ معاون ثابت ہوگا؟
عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ، جس میں سیاسی جماعتوں سے مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے کی وجوہات بیان کرنے کےلئے کہا گیا ہے، ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں پر اخلاقی معیار کا لحاظ رکھنے کےلئے دباؤ ڈالنے کا اختیار مل سکتا ہے۔ کیونکہ اس فیصلے کی رو سے اب سیاسی جماعتوں کو کھلے عام یہ بتانا پڑے گا کہ وہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں۔ لیکن یہ فیصلہ محض الیکشن کمیشن کو سیاسی پارٹیوں پر دباو بنانے اور اُن سے سوال پوچھے جانے کا اختیار دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکے گا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں سیاسی جماعتوں سے محض سوال پوچھنے کا اختیار ملنا ہی کافی ہے، یعنی کیا محض سوال پوچھے جانے سے ہی سیاسی جماعتیں دباو میں رہیں گی۔ کیا اس فیصلے کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کسی مجرمانہ پس منظر رکھنے والے شخص کو بطور اُمیدوار نامزد کرنے سے پہلے دو بار سوچنا پڑے گا؟ کیا عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو انتخابات میں جرائم پیشہ لوگوں کی شرکت روکنے میں کامیابی حاصل ہوگی؟
بھارتی سیاست کو اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست جرائم ذدہ ہوگئی ہے۔ پالیمنٹ اور ریاستوں کی اسمبلیوں میں جرائم پیشہ لوگوں کا بطور اُمید وار منتخب ہوجانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سال 2004ء میں منتخب ہونے والی پندرہویں لوک سبھا میں چوبیس فیصد ممبران ایسے تھے، جن کے خلاف جرائم سے جڑے معاملات درج تھے۔ سال 2009ء میں سولہویں لوک سبھا کے انتخابات میں مجرمانہ ریکارڈ ریکھنے والے منتخب اُمیدواروں کی شرح بڑھ کر تیس فیصد تک پہنچ گئی۔ سال 2014ء کے انتخابات کے بعد یہ اُمید پیدا ہوگئی تھی کہ شاید اس معاملے میں اب ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کے سلسلے میں کمی واقع ہوگئی۔ لیکن کم از کم اس معاملے میں کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
سال 2019ء میں ستھرویں لوک سبھا کے انتخابات میں منتخب ہونے والے اراکین میں 43 فیصد اراکین کا مجرمانہ پس منظر ہے۔ جہاں تک مختلف ریاستوں کی اسمبلیوں میں مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کے منتخب ہوجانے کا تعلق ہے، وہاں بھی صورتحال لوک سبھا سے مختلف نہیں ہے۔ زیادہ تر ریاستی اسمبلیوں میں منتخب ہوجانے والے اراکین میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ دہلی کے حالیہ اسمبلی انتخابات، جن میں عام آدمی پارٹی کو مسلسل دوسری بار فتح حاصل ہوئی ہے، میں بھی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے لوگوں کو منتخب ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ 70 اراکین پر مشتمل دہلی کی قانون ساز اسمبلی کے سال 2015ء کے انتخابات میں ایسے چوبیس اراکین منتخب ہوئے تھے، جن کے خلاف مجرمانہ معاملات درج تھے لیکن اسمبلی کے حالیہ، یعنی سال 2020ء کے دہلی اسمبلی انتخاب میں اس طرح کا ریکارڈ رکھنے والے بیالیس اراکین منتخب ہوکر آگئے۔
دہلی اسمبلی میں منتخب ہوجانے والے ایسے ممبران، جن کے خلاف قتل، خواتین سے متعلق جرائم اور نفرت انگیز تقریروں کے معاملات درج ہیں، ان کی تعداد سال 2015ء میں منتخب ہونے والی اسمبلی میں 14 تھی لیکن تازہ انتخابات میں ان سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کرنے والے منتخب اراکین کی تعداد بڑھ کر 37 تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کا الزام رکھنے والے اراکین اسمبلی کی تعداد میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ جس طرح پارلیمنٹ کے لئے منتخب ہوجانے والے اراکین کے بہتر معیار کی توقع غلط ثابت ہوئی بالکل اسی طرح دلی اسمبلی انتخابات میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کے منتخب نہ ہوجانے کی اُمید بھی غلط ثابت ہوگئی۔ حالانکہ عام آدمی پارٹی نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایک معیاری حکمرانی فراہم کرے گی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اگر واقعی اخلاقی معیار کو برقرار رکھا گیا ہوتا تو ہمیں پارلیمنٹ اور دہلی اسمبلی میں صرف ایسے لوگ دیکھنے کو ملتے، جن کا ریکارڈ شفاف ہوتا۔ کیونکہ بی جے پی نے قومی سطح پر شفاف سیاست کی یقین دہانی کرائی تھی اور عام آدمی پارٹی نے بھی دہلی اسمبلی کی سیاست کے بارے میں ایسا ہی دعویٰ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے منتخب اُمیدواروں کے معیار کے حوالے سے کوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔
حالیہ فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے انتخابی اُمیدواروں کو نامزد کرنے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے لئے چھ رہنما اصول مرتب کئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے سیاسی جماعتوں اپنے نامزد اُمیدواروں کے مجرمانہ ریکارڈ کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر تفصیلات فراہم کرنے کا پابند بنایا ہے۔ فیصلے میں سیاسی جماعتوں کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا کہ وہ بتائیں کہ اُنہیں نامزدگی کے لئے کوئی ایسا اُمیدوار کیوں نہیں ملا، جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ موجود نہ ہو۔ یعنی سیاسی جماعتوں کو بتانا پڑے گا کہ وہ کسی ایسے شخص کو ٹکٹ کیوں دے رہے ہیں، جس کے خلاف مجرمانہ کیس یا کیسز درج ہوں۔