امریکی طبی ماہر انتھونی فاوسی کا کہنا ہے کہ ملک گیر لاک ڈاون کا اعلان کرنے اور وسیع پیمانے پر ٹیکہ کاری کرنے کی صورت میں ہی بھارت اس صورتحال پر قابو پاسکتا ہے۔ اگرچہ ہر ریاست نے اپنے طور سے نقل و حرکت پر قدغن لگا رکھی ہے اور کرفیو اور لاک ڈاون جیسے اقدامات کیے ہیں لیکن وبا کنٹرول ہوجانے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ٹیکہ کاری پروگرام کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنے کی توقع تھی لیکن یہ مہم بھی سست پڑ گئی کیوں کہ مرکزی سرکار نے ویکسین کا مطلوبہ تعداد میں دستیاب نہ ہونے کے باوجود 18 سے 45 برس کی عمر کے لوگوں کو ٹیکے لگوانے کا اعلان کیا۔ تخمینہ لگایا جارہا ہے کہ جس رفتار سے اس وقت ٹیکہ کاری جاری ہے، اس کے نتیجے میں پوری قوم کو ٹیکے لگوانے میں تین برس کا وقت لگ جائے گا۔
تخمینے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وائرس نئی شکل اختیار کرے گا اور پھر اس پر ویکسین کا اثر نہیں ہوگا۔ اپنے سنکی پن کے باوجود سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں ویکسین کی تیاری اور تحقیق کے لیے 2 ہزار کروڑ امریکی ڈالر کی خطیر رقم مختص کرلی تھی۔ اس اقدام کے نتیجے میں ہی آج امریکا صورتحال پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس حکومت ہند نے کووِڈ ویکسین کے لیے 35 ہزار کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان تو کیا لیکن عملی طور پر اس رقم کا صرف چودہ فیصد ہی خرچ کیا۔ اب مرکز نے ریاستوں پر ویکسین خریدنے کے لیے پچاس فیصد قیمت کی ادائیگی کا بوجھ ڈال دیا ہے۔ اس ساری صورتحال کے نتیجے میں ملک میں اب تک محض تین فیصد آبادی نے ویکسین کے دونوں ٹیکے لگوائے ہیں۔ جبکہ دُنیا کے اکثر ممالک میں مفت ٹیکہ کاری کی جارہی ہے۔ حکومت ہند نے ویکسین کی قیمتیں 700 سے 1500 تک فی ٹیکہ مقرر کرالی ہیں۔ اس غیر واضح ویکسین پالیسی کو عملاتے ہوئے مرکز کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بالکل ایک غیرمعقول بات ہے۔
30 اپریل کو سپریم کورٹ نے مرکز کو ہدایات دی تھیں کہ وہ پیٹنٹ (یعنی حقِ ایجاد کی سند) ایکٹ کے دفعہ 92, 100, یا 102 کو لاگو کرنے پر سوچ بچار کرے تاکہ اہم ادویات کی تیاری کرنے میں سرعت لانے کی راہ ہموار ہوسکے۔ اس کے جواب میں مرکز نے حال ہی میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اس طرح کے اقدام کے نقصان دہ نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ٹی آر آئی پی ایس معاہدے اور دوہہ اعلامیہ کی خلاف ورزی ہوگی۔ اس لیے سفارتکاری کے ذریعے اس معاملے کا کوئی حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں بھارت اور جنوبی افریقہ نے پیٹنٹس ( سند حقِ ایجاد) کو استثنیٰ دینے کی طرفداری کی تھی۔
عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی رائے ہے کہ چونکہ غیر معمولی اور ایمرجنسی صورتحال کے حوالے سے قوائد موجود ہیں اسلیے پیٹنٹ کی اڑچن ہٹائی جاسکتی ہے۔ چونکہ وبا نے موت کا رقص شروع کردیا ہے، اس لیے امریکا بھی پیٹنٹ سے استثنیٰ کے حق میں ہے۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہےکہ موجودہ بحران میں صرف پیٹنٹ کو ہٹانا ہی کافی نہیں ہے۔ اگر ویکسین کی پیداوار کو اس مقام تک پہنچانا مطلوب ہے، جہاں اس کی وسیع پیمانے پر ڈیمانڈ ہو تو اس کے ساتھ کئی دیگر چیزیں جیسے کہ ٹیکنالوجی کی منتقلی، اہم مشینوں کو دستیاب رکھنے، خام مال فراہم کرنے اور انسانی وسائل کی قلت کو دور کرنے جیسے معاملات سے بھی نمٹنا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حقِ ایجاد کو استثنیٰ بھی دیا جائے، تب بھی بھارت ماڈرنا اور پی فزر جیسے ویکسین ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے بغیر نہیں بنا سکتا ہے۔
مرکز کو ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے جس کے نتیجے میں ملک کے شہریوں کو آسانی سے ویکسین فراہم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ وقت کا تقاضا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اضافی سٹاک کو بھارت جیسے ممالک کو فراہم کریں۔ ملک کو موجودہ بحران سے اسی صورت میں نجات حاصل ہوسکتی ہے، جب مرکز انتشار کو ختم کرتے ہوئے ریاستوں کی آرا کو بھی تسلیم کرے گا۔