ایسٹ کنٹینر ٹرمینل سے متعلق معاہدہ بھارت، جاپان اور سری لنکا کے درمیان سنہ 2018 میں اُس وقت طے پایا گیا تھا، جب سری سینا کی قیادت والی فریڈم پارٹی (ایس ایل ایف پی) میں سے مہندا راجا پکشے کو نکالے جانے کے بعد متھری پالا سری سینا اور رانیل وکرم سنگھئے کا دورِ اقتدار جاری تھا۔ یہ صدر وکرم سنگھئے تھے، جنہوں نے ایس ایل ایف پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے متعلقہ ممالک کے درمیان مفاہمت کی یاداشت یعنی میمو رینڈم آف کوپریشن (ایم او سی) یقینی بنایا۔
حقیقت یہ ہے کابینہ کی ایک میٹنگ میں سری سینا اور وکرم سنگھئے کے درمیان اُس وقت گرم گفتاری بھی ہوئی تھی، جب سابق صدر نے ایسٹ کنٹینر ٹرمینل کی اپ گریڈنگ اور کولمبو بندرگاہ پر ایک ٹرمنل کی تعمیر کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی تجویز کی حمایت کی تھی۔
اس معاہدے کا بنیادی مقصد خطے میں چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ روکنا اور اس پروجیکٹ سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کرنا تھا۔ کیونکہ معاہدے پر عمل درآمد ہوجانے کے نتیجے میں سری لنکا کے پاس سو فیصد مالکانہ حقوق بحال رہنے کے ساتھ ساتھ پروجیکٹ کے کام میں 51 فیصد کی شراکت داری رہتی۔ جبکہ اُن پروجیکٹوں، جن میں چین شامل ہے، میں سری لنکا کے مقابلے میں چین کی ہی بھاری حصہ داری ہے۔
تاہم راجا پکشے برادران نے ایسٹ کنٹینر ٹرمینل سے متعلق اس سہہ فریقی معاہدے کے خلاف ایک مسلسل مہم چلائی، جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ پروجیکٹ کی بدنامی ہوئی بلکہ اس مہم نے اُنہیں سنہ 2020 کے انتخابات میں اپنے سیاسی حریفوں پر برتری بھی دی۔
اس نے بندرگاہ کے ورکرز کو بھی اُکسایا اور اُنہوں نے کولمبو بندرگاہ پر ایسٹ کنٹینر ٹرمینل سے متعلق معاہدے کے خلاف مزاحمت کی۔ یہ راجا پکشے کے لیے انتخابی مہم کا حصہ بن گیا اور اُنہوں نے برہم ورکز کو وعدہ کیا کہ وہ ایسٹ کنٹینر ٹرمینل سے متعلق معاہدے کو موخر کرادیں گے۔ چنانچہ راجا پکشے کے بر سر اقتدار آنے کے ساتھ ہی یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اس جزیرہ نما ملک میں بھارت کے حوالے سے اب کئی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
ایسٹ کنٹینر ٹرمینل چین کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا کیونکہ یہ پروجیکٹ 1.4 بلین ڈالر کے تخمینے کے کولمبو انٹرنیشنل کنٹینر ٹرمینل کے قریب ہی واقع ہے، جس میں چین اور سرلنکا کے شراکت داری ہے اور اس کا 84 فیصد حصہ چین کا ہے۔
یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ چین نے کس طرح سے دوسری قوموں کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے، ہمسایہ ممالک اور دور دراز خطوں میں اپنے پیر جما رکھے ہیں۔ چین کے وسیع بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ اور اس کے ساتھ ساتھ سمندری تجارتی راہدریوں کی تعمیر کا مقصد ایشیا، یورپ اور باقی دُنیا میں چین کے سیاسی اور معاشی مفادات کے لیے سڑکوں کا جال بچھانا ہے۔
چین بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے اہداف کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ بھارت اپنے جغرافیائی حجم اور جیو پولٹیکل حیثیت کی وجہ سے چین کے توسیع پسندانہ پالیسی کے لیے ایک متوقع خطرہ ہے، اس لیے چین ہر جگہ بھارت کا پیچھا کررہا ہے اور اس کے تعمیراتی پروجیکٹوں کو ہدف بنا کر اس کی معیشت کو نقصان پہنچا رہا ہے۔