اردو

urdu

ETV Bharat / opinion

چین کی کتھنی اور کرنی میں فرق ہے: سابق بھارتی سفیر

معروف صحافی ارونیم بھوہیان نے چین اور بھارت کے تعلقات کے حوالے سے سابق بھارتی سفیر گوتم بامباولے سے بات چیت کی۔ بامباولے نے کہا کہ بھارتی حکومت کے ذریعہ چینی ایپس پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ چین کو ناگوار محسوس ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلوبل ٹائمز نے اپنے آرٹیکل میں کہا ہے کہ بیجنگ - نئی دہلی کا دشمن نہیں تو پھر چین لداخ میں صورتحال کو معمول پر کیوں نہیں لارہا ہے؟

چین کے الفاظ بھارت کے خلاف اپنے اقدامات کی عکاسی نہیں کرتے:سابق بھارتی سفیر
چین کے الفاظ بھارت کے خلاف اپنے اقدامات کی عکاسی نہیں کرتے:سابق بھارتی سفیر

By

Published : Aug 25, 2020, 5:08 PM IST

مشرقی لداخ میں جاری سرحدی تنازعہ کے درمیان بھارت کی جانب سے درجنوں چینی مصنوعات پر پابند عائد کرنے کے اعلان کے بعد چینی شہریوں کے ویزوں پر پابندی عائد کئے جانے کی اطلاعات کے دوران چینی میڈیا نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ بیجنگ، نئی دہلی کا دشمن نہیں ہے جبکہ سابق بھارتی سفیر گوتم بمباوالا کا کہنا ہے کہ شمالی پڑوسی کی کتھنی اور کرنی میں فرق ہے۔

چین کے با اثر انگریزی روزنامہ گلوبل ٹائمز نے بلومبرگ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے سرحدی تنازعہ کے بعد بھارت کے ذریعہ ویزا پر پابندی عائد کرنے کو چین مخالف جذبات کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق بھارت چینی تاجروں، ماہرین تعلیم، صنعتی ماہرین کے ویزوں پر پابندی عائد کررہا ہے جس کے بعد گلوبل ٹائمز نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ ایک سیاسی اشارہ ہے، جو سرحدی جھڑپوں کے بعد چین مخالف جذبات کو اجاگر کررہا ہے۔


مضمون میں کہا گیا ہے کہ "بھارت غلط طریقے سے چین کو دشمن سمجھتا ہے۔

اس مضمون میں چینگڈو انسٹی ٹیوٹ آف ورلڈ افئیرز کے صدر لانگ زنگچن کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'چینی عوام کے ویزوں پر نئے پابندیوں کو عائد کرنا مکمل طور پر بھارتی عہدیداروں اور سیاستدانوں کی ایک سیاسی چال ہے۔جس سے وہ ملک میں قوم پرستی کے سہارے چین مخالف جذبات پیدا کرسکیں۔قومی سلامتی کے امور کے بارے میں وہ کس قدر محب وطن ہیں۔'


چینی شہریوں کے ویزوں پر پابندی عائد کرنے کی یہ رپورٹ تب سامنے آئی جب نئ دہلی نے جون میں سرحدی تنازعہ کے دوران ایک کرنل سمیت 20 ہندوستانی فوجی کھونے کے نیتجے میں ویڈیو شیرئنگ سوشل نیٹ ورکنگ سرویز ٹک ٹاک سمیت 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کردی تھی۔واضح رہے کہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول میں 45 سال کے بعد پہلی بار یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے تھے۔

نئی دہلی اور بیجنگ کے مابین سفارتی اور فوجی مذاکرات رواں ماہ کے شروع سے ہی تعطل کا شکار ہیں جب سے چین نے مشرقی لداخ میں پینگانگ، وادی گلوان، دیسپانگ اور گوگرا پر اپنا دعوی کیا ہے۔

گلوبل ٹائمز نے مضمون میں کہا ہے کہ جب بھی باہمی تعلقات میں تنازعات پیدا ہونے لگتے ہیں بھارت نے ہمیشہ سے ہی چینیوں پر ویزے کی پابندی جیسے اقدامات کا سہارا لیا ہے۔

بھارت میں کووڈ 19 وبائی مرض اور چین مخالف جذبات نے بھارت کا سفر کرنے کے لیے چینیوں کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔بھارت اور چین کے مابین کسی بھی قسم کا تبادلہ کم از کم ایک سال تک نہیں ہوسکتا جب تک وبائی مرض سے پہلے جیسی صورتحال واپس نہیں آجائے۔

وہیں بھارت کی وزارت تعلیم مقامی ہندوستانی تعلیمی اداروں کے ساتھ مل کر چین کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کےقیام کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔

کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ چین میں کالجوں اور یونیورسٹیوں اور دوسرے ممالک کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے مابین عوامی تعلیمی شراکت ہیں۔اس کی پارٹنرشپ کو ہنبان (سرکاری طور پر چینی زبان کونسل بین الاقوامی کا دفتر) کے ذریعہ مالی امداد حاصل ہے،جو خود چینی وزارت تعلیم سے وابستہ ہے۔


اس پروگرام کا واضح مقصد چینی زبان اور ثقافت کو فروغ دینا ، بین الاقوامی سطح پر مقامی چینی تعلیم کی تائید کرنا ، اور ثقافتی تبادلے کو آسان بنانا ہے۔یہ تنظیم جن ممالک میں کام کررہی ہے ان ممالک میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے اس تنظیم کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پروگرام 2004 میں شروع ہوا تھا اور اسے ہانبن کی حمایت حاصل ہے، اس کی نگرانی انفرادی یونیورسٹیوں کے ذریعہ کی جاتی ہے۔۔ یہ انسٹی ٹیوٹ دنیا بھر کے مقامی وابستہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعاون سے کام کر رہے ہیں اور اس انسٹی ٹیوٹ کو ہانبن اور میزبان یونیورسٹی(جہاں اس انسٹی ٹیوٹ کا قیام کیا گیا) کے مابین مالی اعانت مشترکہ ہے۔

بیجنگ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پروگرام کو ان لوگوں کے ساتھ سانجھا کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے فرانس کے ایلائنس فرانسیس اور جرمنی کے گوئٹے انسٹی ٹیوٹ جو دیگر ممالک میں متعلقہ ممالک کی زبان اور ثقافت کو فروغ دیتے ہیں۔حالانکہ ایلائنس فرانسیس اور گوئٹے انسٹی ٹیوٹ جو دیگر ممالک میں آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں، کنفیوشش انسٹی ٹیوٹ مکمل طور پر ان اداروں کے برعکس ہے، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ دوسری حکومتوں کے مقامی اداروں کے ساتھ ساتھ چینی حکومت کی مالی اعانت کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ پروگرام بیجنگ کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔

گلوبل ٹائمز کے مضمون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت سرمایہ کاری کے نئے ضابطے اپریل میں جاری کریگا اور یہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ امیتازی سلوک کرسکتا ہے۔

پچھلے کئی سالوں سے ، ہندوستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) سے متعلق قواعد کو آہستہ آہستہ آزادی دی گئی ہے۔یشتر شعبوں میں کمپنیاں اور ادارے 100 فیصد غیر ملکی ملکیت ہوسکتے ہیں اور کئی شعبوں میں سرمایہ کاری خود کار طریقے سے کی جاسکتی ہے۔

تاہم وسیع پیمانے پر یہ توشیش ظاہر کی جارہی ہے کہ بھارت کے ساتھ زمینی سرحد سے جڑنے والے ممالک خاص طور پر چین، موجودہ معاشی بدحالی میں بھارت کی معیشت میں ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہوئے کم قیمت پر بھارتی کمپنیوں میں داؤ لگاسکتا ہے۔

اس طرح کے ’موقع پرست‘ سرمایہ کاریوں کو روکنے کے لئے بھارت نے فارین ایکسجینج مینجمنٹ قواعد، 2019(نظر ثانی شدہ قواعد) میں ترمیم کرتے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا۔نظرثانی شدہ قوانین کے مطابق کوئی بھی سرمایہ کاری کرنے والا ادارہ جو بھارت کے ساتھ زمینی سرحد بانٹتا ہے وہ اب بھارتی حکومت کی منظوری کے بعد ہی یہاں سرمایہ کرسکتی ہے۔یہاں تک کہ اگر بھارت میں کسی بھی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانے والے شخص کا تعلق بھی ان ممالک سے ہے یا ان ممالک کے شہری ہیں تو ، اس طرح کی سرمایہ کاری کے لئے انہیں ہندوستانی حکومت کی منظوری حاصل کرنی ہوگی۔ یہ قواعد رواں سال 22 اپریل کو نافذ کیا گیا تھا۔

چین میں بھارت کے سابق سفیرگوتم بامباولے نے گلوبل ٹائمز کے اس مضمون، جس میں بتایا گیا کہ چین بھارت کا دشمن نہیں ہے، پر کہنا ہے کہ بیجنگ کے اقدامات اس کے الفاظ سے میل جول نہیں کھاتے۔بامباولے نے ای ٹی وی بھارت کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر آپ (چین) ہندوستان کو دشمن نہیں مانتے ہیں ، تو پھر لداخ میں آپ معمول صورتحال کو بحال کیوں نہیں کر رہے ہو۔


جب یہ پوچھا گیا کہ چینی ایپس پر پابندی کی وجہ سے کیا ہندوستانی معیشت متاثر نہیں ہوگی تو سابق سفارتکار نے کہا کہ اس سے چین کی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔

بامباولے نے خاص طور پر ٹک ٹوک پر عائد پابندی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات واقعی انھیں(چین) تکلیف دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا ، "ہندوستان نے ٹک ٹک پر پابندی عائد کرنے میں پہلا قدم اٹھایا ہے جس کے بعد اب امریکہ ، جاپان اور جنوبی کوریا اس پر پابندی عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔"

بھارت ، امریکہ ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ ، اس کواڈ کا ایک حصہ ہے جو ہند بحر الکاہل میں امن اور خوشحالی کے لئے کام کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، یہ خطہ جاپان کے مشرقی ساحل سے افریقہ کے مشرقی ساحل تک پھیلتا ہے۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details