اردو

urdu

ETV Bharat / international

Pak US Ties کسی پروپیگنڈے کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کو خراب نہیں ہونے دیں گے، نیڈ پرائس

امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ ہم غلط معلومات کا مقابلہ حقائق کی مدد سے ہی کرسکتے ہیں اور ہم پاکستان کے ساتھ قابل قدر دوطرفہ شراکت سمیت اہم دوطرفہ تعلقات کی راہ میں غلط اور گمراہ کن معلومات کی وجہ خراب نہیں ہونے دیں گے۔ دراصل عمران خان کی جانب سے پاکستان میں مسلسل یہ بیانیہ پیش کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکہ مداخلت کررہا ہے۔Pak US Ties

Ned Price
نیڈ پرائس

By

Published : Nov 1, 2022, 10:54 PM IST

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کو گرانے میں امریکی سازش کے ملوث ہونے کے مسلسل دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ حقائق کی مدد سے غلط معلومات کا مقابلہ جاری رکھے گا۔Pak US Ties

لانگ مارچ کے دوران عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کے الزام سے متعلق سوال پر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ ’ہم غلط معلومات کا مقابلہ حقائق کی مدد سے ہی کر سکتے ہیں‘۔ نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے سے کئی بار ایسے دعووں کو مسترد کیا جاچکا ہے کیونکہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم پاکستان کے ساتھ قابل قدر دوطرفہ شراکت سمیت اہم دوطرفہ تعلقات کی راہ میں غلط اور گمراہ کن معلومات کو آڑے نہیں آنے دیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ہم امریکہ اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تعاون کی قدر کرتے ہیں، ہم نے ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے اہم سمجھا ہے اور اس حوالے سے ہماری رائے برقرار ہے‘۔ ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک اور سوال کے جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات کا ابھی اعلان نہیں ہوا لیکن ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آئینی اور جمہوری انتخابات کے پُرامن انعقاد کی حمایت کرتے ہیں، یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہم دنیا بھر میں موجود ہمارے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوو?ں کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بارہا مسترد کیا جاچکا ہے۔ یہ تنازع اس گفتگو کے نتیجے میں پیدا ہوا جو 7 مارچ کو اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے لیے ان کی رہائش گاہ (جسے پاکستان ہاؤس بھی کہا جاتا ہے) پر ایک الوداعی ظہرانے کے موقع پر ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں:

Joe Biden on Pakistan پاکستان سے متعلق جو بائیڈن کے متنازع بیان سے امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ماہرین

US Pakistan Relation امریکہ پاکستان سے دور جانے کا متحمل نہیں ہو سکتا، رپورٹ


سفارتی اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ یہ محض ایک ظہرانہ تھا لیکن اس ملاقات کے نوٹ بھی لیے گئے، بعد ازاں سفیر اسد مجید خان نے جو کیبل اسلام آباد بھیجا وہ اسی ملاقات کے نوٹس پر مبنی تھا۔ظہرانے میں شرکت کرنے والے امریکی حکام میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو اور ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری لیسلی سی ویگوری شامل تھے، پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے۔

یہ تنازع جولائی میں میڈیا رپورٹس کے ذریعے دوبارہ موضوع بحث بنا جب یہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری اوورسیز عبداللہ ریار نے ڈونلڈ لو سے رابطہ کیا اور ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کی درخواست کی، تاہم عبداللہ ریار نے ایسی خبروں کو محض قیاس آرائیاں قرار دے کر مسترد کردیا۔

رواں برس مارچ میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی خارجی پالیسی کی وجہ سے ایک ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ ہے اور انہیں بے دخل کرنے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے ہیں۔بعد ازاں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے صحافیوں سے گفتگو میں اپنے اس دعوے کی بنیاد ’مبینہ سازش کی تفصیلات پر مبنی‘ اس کیبل کو قرار دیا جو واشنگٹن میں سابق پاکستانی سفیر نے 7 مارچ کو اسلام آباد بھیجا۔

سفارتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس کیبل میں کسی سازش کا ذکر نہیں کہا گیا، تاہم ڈونلڈ لو نے یوکرین پر روس کے حملے کے روز سابق وزیر اعظم کے دورہ روس پر جو بائیڈن انتظامیہ کے 'ناخوش' ہونے کا اظہار کیا تھا۔ڈونلڈ لو نے مزید کہا تھا کہ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں یہ 'ناخوشی' برقرار رہے گی، طویل گفتگو کے دوران ڈونلڈ لو نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں بھی سوالات کیے کیونکہ یہ موضوع میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔

عبداللہ ریار کے ڈونلڈ لو کے ساتھ مبینہ رابطے پر تبصرے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا تو ایک ترجمان نے کہا کہ ’ضوابط کے مطابق ہم نجی سفارتی ملاقاتوں پر تبصرہ نہیں کرتے‘۔ (یو این آئی)

ABOUT THE AUTHOR

...view details