اردو

urdu

ETV Bharat / international

Hamas Israel Tension History حماس اور اسرائیل میں کشیدگی کی اہم وجوہات کیا ہیں؟ - مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت

مذہبی اہمیت کے حامل یروشلم (القدس) پر تسلط کے لئے حماس ہمیشہ اسرائیل سے ٹکراتا رہتا ہے۔ عربوں اور یہودیوں میں یہ جنگ 1948 سے چلی آرہی ہے،جب اسرائیل کو الگ ریاست کا درجہ دیا گیا تھا۔ اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔The religious significance of Jerusalem

Tension between Hamas and Israel
Tension between Hamas and Israel

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 12, 2023, 11:21 AM IST

Updated : Oct 12, 2023, 11:44 AM IST

حیدرآباد:فلسطین اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو سمجھنے سے پہلے یروشلم (عربی میں القدس) کی مذہبی اہمیت کو جاننا بہت ضروری ہے۔ یروشلم دنیا کے تین مذاہب کے دلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ شہر اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ یروشلم اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے کیونکہ یہاں مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔ اس میں گنبد صقریٰ بھی ہے، جہاں سے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر پر تشریف لے گئے تھے۔ الحرام الشریف، یا نوبل سینکچری یہودیوں اور مسلمانوں کے نزدیک وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے اسماعیل (جو عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے اسحاق ہیں) کو اللہ نے قربان کرنے سے روکا تھا۔ عثمانی دور حکومت کے دوران فلسطین میں یہودیوں کی ایک چھوٹی آبادی تھی اور،عثمانی حکومت کے خاتمے کے آغاز پر 19ویں صدی تک یروشلم ایک زیادہ کھلا شہر بن گیا تھا۔ عیسائی زائرین میں اضافہ ہوا اور گرجا گھر، شفاخانے اور دیگر ادارے بنائے گئے۔

Tension between Hamas and Israel

اسرائیل کا وجود:

  • یورپ میں یہودیوں کے ساتھ نارواں سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی۔ یہودیوں نے اپنے لئے ایک الگ ریاست کا خواب دیکھنا شروع کردیا۔
  • پہلی جنگ عظیم یہودیوں کیلئے کارگر ثابت ہوئی کیونکہ فلسطین سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں سے برطانیہ کے زیرتسلط آگیا۔ یہی وہ وقت تھا جب یہودی بڑی تعداد میں فلسطین منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ یہودیوں کی کشیدگی کا آغاز ہوا۔
  • برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کردیا جس کے نتیجہ میں مختلف ریاستیں وجود میں آئیں تاہم فلسطین برطانیہ کے زیرتسلط ہی رہا جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔
  • صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔
  • معاملہ اقوام متحدہ پہنچا جہاں سنہ 1947 میں ووٹنگ کے ذریعے فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ دیا گیا جن میں ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست بنائی گئی اور یروشلم (بیت المقدس) کو ایک بین الاقوامی شہر کے طور پر پیش کیا گیا۔
  • اس طرح 14 مئی 1948 کو اسرائیل کا قیام عمل میں آیا، اور اس کے اگلے ہی دن اردن، مصر، شام اور عراق نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا۔
  • اس طرح فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لے لیا۔ ساڑھے سات لاکھ فلسطینی ہمسایہ ممالک خود فرار ہوئے یا انھیں اسرائیلی فوجیوں نے بے دخل کر دیا۔
Tension between Hamas and Israel
Tension between Hamas and Israel

عرب اسرائیل جنگ :

  • 1967 کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازعے کو مذید پیچیدہ بنا دیا جب اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا۔ مصر کو سینائی سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔
  • 1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔

6 سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔

Tension between Hamas and Israel

یروشلم ( بیت المقدس ) تنازعہ :

  • اسرائیل نے 2005 میں غزہ کی پٹی سے تو اپنی فوج نکال لی لیکن وہ آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے۔ اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ ہی مانتا ہے۔
  • اسرائیل پورے یروشلم کو اپنا دارالحکومت مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت مانتے ہیں۔
  • اس وقت دو فلسطینی علاقے ہیں جن میں سے ایک غرب اردن اور ایک غزہ کی پٹی ہے۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان 45 کلومیٹر کا فاصلہ ہے
  • غرب اردن کا رقبہ 5970 سکوائر کلومیٹر جبکہ غزہ کی پٹی صرف 365 سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔
  • غزہ کی پٹی کی سرحد کا سات کلومیٹر حصہ مصر سے ملتا ہے اور ایک جانب بحیرہ روم واقع ہے۔
  • غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس اقتدار میں ہے جو آئے دن اسرائیل سے ٹکراتا رہتا ہے۔ وہیں، غرب اردن میں فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔
  • غرب اردن میں 86 فیصد فلسطینی شہری ہیں جبکہ 14 فیصد لوگ اسرائیلی کے ذریعہ آباد کئے ہوئے ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں۔
  • ان میں سے زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80 اور 90 کی دہائی میں تعمیر کی گئی ہیں لیکن گذشتہ 20 برسوں میں ان کی آبادیوں میں دوگنا اضافہ کیا گیا ہے۔
  • اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرتا ہے اور اپنی فوج کے ذریعہ ان کی حفاظت بھی کرتا ہے۔
Tension between Hamas and Israel

غزہ کی پٹی میں حماس :

  • حماس غزہ کی پٹی پر حکومت کرنے والا فلسطینی عسکریت پسند گروپ ہے جس نے 2007 میں یہاں اقتدار سنبھالا تھا۔
  • 2007 سے لے کر اب تک حماس، اسرائیل کے ساتھ کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔
  • حماس نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے ہیں اور کئی حملے کیے ہیں۔ جس کا جواب اسرائیل نے فضائی حملوں کے ذریعہ دیا ہے۔
  • 2007 سے اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
  • اسرائیل سمیت دنیا کی کئی بڑی طاقتیں جیسے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین حماس یا اس کے عسکری ونگ کو دہشت گرد قرار دے چکی ہیں۔
  • کہا جاتا ہے کہ حماس کو ایران کی حمایت حاصل ہے اور ایران ہی حماس کو پیسہ،ہتھیار سپلائی کرتا ہے۔
Tension between Hamas and Israel
Tension between Hamas and Israel

فلسطینیوں کا مطالبہ:

  • فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967 کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔
  • اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے بعد غیر قانونی بستیاں تعمیرکئے ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 5 لاکھ کے قریب یہودی بسے ہوئے ہیں۔
  • فلسطینی دنیا بھر میں موجود ایک کروڑ فلسطینیوں کو اسرائیل واپس لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اسرائیل یہودی شناخت خطرے میں پڑنے کی دہائی دے کر ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
Last Updated : Oct 12, 2023, 11:44 AM IST

ABOUT THE AUTHOR

...view details