واشنگٹن: امریکی سفیر برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور الزبتھ ہورسٹ نے کہا ہے کہ پاکستانی اداروں کو سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے انتخابی عمل آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کو یقینی بنایا جا سکے۔ ڈان کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ہم بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کی مستقبل کی قیادت کا فیصلہ پاکستانی عوام کو کرنا ہے، پاکستانی عوام انتخابات کے حقدار ہیں، پاکستانی اداروں کو سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اس عمل کو آگے بڑھانے کرنے کی ضرورت ہے۔
الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ ہم انتخابی عمل کو اس طرح سے آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں جو آزادی اظہار، اسمبلی اور ایسوسی ایشن کے احترام کے ساتھ وسیع پیمانے پر شرکت کی سہولت فراہم کرے۔ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ، انتخابات کے انعقاد کے مطالبے کی حمایت کرے گا؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ انتخابی عمل کی نگرانی اور انتظام پاکستانی ادارے کر رہے ہیں، ہماری دلچسپی جمہوری عمل میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم ایسے انتخابات دیکھنا چاہتے ہیں جو آزادانہ اور منصفانہ ہوں اور پاکستان کے قوانین اور آئین کے مطابق ہوں۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے اقدامات کے حوالے سے الزبتھ ہورسٹ نے کہا کہ پاکستان کے لیے امریکی امداد میں انسانی حقوق کے احترام کو خصوصی ترجیح دی جاتی ہے، نہ صرف ہمارے ترقیاتی امدادی پروگراموں میں بلکہ سیکیورٹی اور قانون کے نفاذ میں بھی ہمارے تعاون میں اسے ترجیح دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سینئر حکام پاکستانی ہم منصبوں کے ساتھ انسانی حقوق کے مسائل کو معمول کے مطابق اٹھاتے ہیں، اس میں سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن، قائم مقام ڈپٹی سیکریٹری وکٹوریا نولینڈ، اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ بلوم نے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سمیت دیگر نگران حکومتی عہدیداروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں اور بات چیت کے دوران اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ امریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ صحافیوں اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں اور ہراساں کرنے سمیت آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت پر پابندیوں کے بارے میں اپنے تحفظات پاکستانی حکام کے سامنے اٹھاتا رہا ہے اور اٹھاتا رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ مسلح افواج پر تنقید کی سنسر شپ اور لائسنس معطل کرکے آزاد میڈیا کو خاموش کرنے کے لیے مقامی قانون اور ضابطے کے استعمال جیسے مسائل پر بھی امریکی حکام اپنے پاکستانی ہم منصبوں سے بات کرتے رہتے ہیں۔