واشنگٹن: امریکی سپریم کورٹ نے 24 جون کو روے اور ویڈ Roe v. Wade کیس میں 50 برس پرانے اپنے ہی فیصلے کو پلٹتے ہوئے اسقاط حمل Abortion کے لیے دیے جانے والے آئینی تحفظ کو منسوخ دیا ہے۔ جمعہ کو آنے والے اس فیصلے سے تقریباً نصف ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی لگنے کی امید ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جبکہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔US Supreme Court on Abortion سپریم کورٹ کے اسقاط حمل کے آئینی حق کو ختم کرنے کے بعد کئی امریکی ریاستوں میں اس شعبے میں کام کرنے والے کلینک بند ہونا شروع ہو گئے اس کے علاوہ اب تک ایک درجن سے زیادہ امریکی ریاستیں اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں۔
دراصل امریکی سپریم کورٹ ریاست میسسیپی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کی جس کیس میں حمل ٹھہرنے کے پندرہ ہفتے بعد اسقاط حمل کروانے پر پابندی تھی اور اسی پابندی کو چیلینج کیا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنا تاریخی فیصلہ اسی مقدمے کی سماعت کے بعد سنایا۔ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں سے چھ نے یہ فیصلہ سنایا کہ امریکی آئین اسقاط حمل کا حق نہیں دیتا۔ اس کے بر عکس تین ججوں کا یہ کہنا تھا کہ امریکی آئین ملکی خواتین کو اسقاط حمل کا حق دیتا ہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پچاس برس پرانے 1973 میں روے اور ویڈ Roe v. Wade نامی مقدمے میں اپنے ہی اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں اسقاط حمل کو قانونی حیثیت حاصل تھی اور اس پر عمل بھی ہوتا آ رہا تھا تاہم اسی عدالت نے جمعے کے روز اپنا یہ فیصلہ منسوخ کر دیا۔1973 کے فیصلے کے تحت خواتین کو حمل کے پہلے تین ماہ کے اندر اندر اسقاط حمل کا مکمل حق حاصل تھا لیکن حمل ٹھہرنے کے بعد تین سے چھ ماہ کے دوران اسقاط حمل کے لیے چند سخت شرائط کے تحت اجازت تھی جبکہ حمل کی تیسری اور آخری سہ ماہی کے دوران اسقاط حمل پر مکمل پابندی عائد تھی۔
یہ بھی پڑھیں: