حیدرآباد: بھارت سے ایک باپ بیٹے ملک چھوڑ کر پڑوسی ملک پاکستان پہنچ گئے۔ ان دونوں نے مبینہ طور پر کہا کہ بھارت میں انہیں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ اس معاملے پر پاکستان نے بتایا کہ دونوں باپ بیٹے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ دونوں افغانستان کی سرحد سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوئے۔
پاکستانی پولیس کے مطابق 70 سالہ محمد حسنین اور اس کا 31 سالہ بیٹا اسحاق امیر پاک افغان سرحد سے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے۔ یہ دونوں تقریباً 14 روز قبل صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں داخل ہوئے تھے۔ دونوں کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس وقت کراچی میں ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کے شیلٹر ہوم میں مقیم ہیں۔
پریشان ہو کر بھارت چھوڑنے کا فیصلہ کیا: محمد حسنین نے کہا کہ اگر پاکستانی حکام ہمیں جیل میں ڈالنا چاہتی ہے، تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ کیونکہ ہم قانونی دستاویزات کے بغیر پاکستان مین داخل ہوئے ہیں، لیکن ہم یہاں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ حسنین اور امیر کا کہنا ہے کہ وہ نئی دہلی کے علاقے گوتم پوری کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہیں طویل عرصے تک ہراساں کیا گیا اور مذہبی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وجہ سے تنگ آ کر ملک چھوڑ کر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔
محمد حسنین کی فیس بک پروفائل کے مطابق ان کا آبائی گھر جھارکھنڈ کے جمشید پور میں ہے لیکن وہ کافی عرصے سے دہلی میں مقیم ہیں۔ سیاسی اور سماجی طور پر کافی سرگرم رہے ہیں۔ وہ ''دی میڈیا پروفائل'' کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار نکالا کرتے تھے۔ ایم حسنین کے نام سے مضامین لکھا کرتے تھے۔
پاکستان گئے ایم حسنین 'دی میڈیا پروفائل' کے نام سے ایک اخبار بھی چلاتے تھے پاکستان میں پناہ مانگنے والے ایم حسنین کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے مطابق وہ کئی مرتبہ مختلف سطح کے انتخابات بھی لڑ چکے ہیں۔ وہ 'قومی پارٹی آف انڈیا' نام کی سیاسی جماعت کے تحت الیکشن لڑا کرتے تھے۔ حالانکہ ان انتخابات میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔
محمد حسنین کئی بار مختلف سطح کے انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں یہ بھی پڑھیں:
مخالفت کرنے پر بلڈوزر چلا دیتے ہیں: ایک رپورٹ کے مطابق حسنین کا کہنا ہے کہ بھارت میں اگر کوئی مسلمان کسی چیز پر احتجاج کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو اس کے گھر پر یہ کہہ کر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر بنایا گیا ہے۔ وہ مزید کہتا ہے کہ میں ملک چھوڑنے والا پہلا شخص نہیں ہوں۔ مجھ سے پہلے کئی لوگ چھوڑ چکے ہیں، لیکن وہ لوگ امیر تھے اور یورپ، امریکہ، برطانیہ، جرمنی یا کینیڈا جیسے ممالک میں غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے قابل تھے۔ لیکن میرے پاس پیسوں کی کمی تھی اس لیے میں نہیں جا سکا۔