کابل: افغانستان سے امریکی زیر قیادت فوجیوں کے انخلاء کی پہلی سالگرہ کے موقع پر طالبان نے جشن منایا اور قومی تعطیل کا اعلان بھی کردیا ہے۔ 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ بعد کابل سے آخری غیر ملکی فوج کو ملک سے نکلنے کی خوشی میں دارالحکومت کابل کو روشنیوں سے سجایا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی دوسری قوم نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ منگل کی رات کو کابل میں سابق سوویت یونین، برطانیہ اور امریکہ کی جنگ میں شکست کی خوشی میں بینرز آویزاں تھے۔ اسلامی قانون کے قیام کا اعلان کرنے والے طالبان کے سینکڑوں جھنڈے چراغوں اور سرکاری عمارتوں سے لہرائے گئے۔ دیر رات تک کابل کا آسمان طالبان کی طرف سے آتش بازی اور جشن منانے والی گولیوں سے جگمگاتا رہا۔ سابق امریکی سفارتخانے کے قریب مسعود اسکوائر میں طالبان کے جھنڈے اٹھائے مسلح جنگجووں نے امریکہ کے خلاف نعرے بھی بلند کیے۔1st Anniversary of US Troops Withdrawal Kabul
شدید معاشی و انسانی بحران کے باوجود بہت سے افغانوں کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں کہ طالبان کی شورش کو ہوا دینے والی غیر ملکی قوت ختم ہو گئی ہے۔ کابل کے ایک رہائشی زلمے نے کہا، ہمیں خوشی ہے کہ اللہ نے ہمارے ملک کو کفار سے چھٹکارا دلا دیا اور ملک میں اسلامی امارت قائم ہوگئی۔ گزشتہ برس 31 اگست کو شروع ہونے والی آدھی رات کو فوجیوں کے انخلاء سے امریکہ کی افغانستان میں طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ یہ فوجی آپریشن امریکہ میں نائن الیون حملوں کے بعد شروع ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں 66000 افغان فوجی اور 48000 شہری مارے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ 2461 امریکی فوجی بھی مارے گئے۔جس کی وجہ سے امریکہ میں شدید احتجاج شروع ہو گیا۔ نیٹو کے دیگر ممالک کے 3500 سے زائد فوجی بھی مارے گئے۔
طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے پر فخر کے باوجود، افغانستان کے 38 ملین افراد کو اب ایک مایوس کن معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے، عام افغانوں بالخصوص خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے کئی صوبوں میں لڑکیوں کے سیکنڈری اسکول بند کر دیے ہیں اور خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں سے روک دیا ہے۔ حکومتی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ سال میں بڑی کامیابیاں ریکارڈ کی گئیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا کہ افغان جنگ میں ہلاک نہیں ہورہے ہیں، غیر ملکی افواج کا انخلاء ہو گیا ہے، اور سیکورٹی میں بہتری آئی ہے۔