سری لنکا میں حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے بعد نافذ ملک گیر کرفیو کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس نے مغربی صوبے میں 600 سے زیادہ لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ مغربی صوبے میں ہفتہ کی رات 10 بجے سے اتوار کی صبح 6 بجے کے درمیان کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والے 664 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ کولمبو گزٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ "عرب بغاوت" کے طرز پر حکومت کے خلاف اتوار کو زبردست احتجاج ہونا تھا اسی وجہ سے احتیاط کے طور پر ملک گیر کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ آج ہی حکومت کے خلاف سب سے بڑا احتجاج متوقع تھا۔ عرب ممالک میں 2010 کے ابتدائی برسوں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور معاشی تعطل کے سبب حکومت مخالف مظاہروں کی ایک سیریز شروع ہوئی تھی جسے "عرب بغاوت" کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں کئی عرب ممالک میں حکومتوں کے خلاف مظاہرے اور پرتشدد بغاوتیں ہوئیں۔ ان میں حکومت کے خلاف پہلا پرتشدد مظاہرہ تیونس میں ہوا تھا۔ Economical Crisis in Sri Lanka
قابل ذکر ہے سری لنکا کی حکومت نے بجلی کے شدید بحران اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے ہفتہ کی شام 6 بجے سے پیر کی صبح 6 بجے تک ملک بھر میں مکمل کرفیو کا اعلان کیا تھا۔ قبل ازیں صدر گوٹابایا راجا پکسے نے ایک غیر معمولی گزٹ جاری کیا جس میں سری لنکا میں فوری طور پر عوامی ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا۔ راجا پکسے نے کہا کہ ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ عوامی تحفظ، امن عامہ کے تحفظ اور عام زندگی کے لیے ضروری خدمات کی فراہمی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ سری لنکا کے صدر گوٹابایا راج پکسے نے ایک نوٹس جاری کیا ہے جس میں لوگوں پر حکام کی تحریری اجازت کے بغیر کسی بھی عوامی سڑکوں، پارکوں، ٹرینوں یا سمندر کے کنارے جانے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔حکومت نے فیس بک، واٹس ایپ اور ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا سائٹس کو بھی بند کر دیا تھا جس کو 15 گھنٹے بعد بحال کردیا گیا ہے۔