شیرین ابو عاقلہ کی موت کی خبر نے پورے خطے کو دہلادیا۔ 51 سالہ صحافی دو دہائیوں سے زائد عرصے تک فلسطینی علاقوں میں الجزیرہ کےلیے رپورٹنگ کررہی تھیں، اس دوران انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کئی جھڑپوں کی رپورٹنگ کی تھی۔ اسرائیلی فورسس اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں ابھی تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شیرین ابو عاقلہ کا نام بدھ کے روز عربی میں ٹویٹر پر ٹرینڈ ہوا، جس سے فلسطینی حمایت کا اظہار ہورہا تھا۔ صحافی کی تصویر مغربی کنارے کے شہر رملہ اللہ میں واقع مرکزی چوک پر نصب کی گئی جبکہ ہزاروں سوگوار الجزیرہ کے دفتر اور مشرقی یروشلم میں صحافی کے گھر پر پہنچے تھے۔ Abu Akleh's name trended across Twitter in Arabic on Wednesday, setting social media alight with support for the Palestinians
الجزیرہ اور عینی شاہدین کے مطابق بدھ کے روز اسرائیلی فائرنگ میں شیرین ابو عاقلہ کی موت ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ فورسس کی جانب سے صحافی کی پیٹھ پر گولی ماری گئی تھی۔ تاہم اسرائیل نے اس واقعہ کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم اس معاملہ میں امریکی و فلسطینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
شیرین ابو عاقلہ، اسرائیلی قبضے سے متعلق تلخ حقائق کی کوریج کےلیے مشہور تھی اور وہ ایک فلسطینی صحافی کے طور پر فرنٹ لائنز کی طرح جڑی رہیں۔ ان کی موت سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے ہر فلسطینی کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے، چاہے وہ ایک صحافی ہی کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ وہ ایک امریکی شہری بھی تھی اور اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ امریکہ جایا کرتی تھیں، لیکن وہ زیادہ تر مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں ہی رہتی اور کام کرتی تھیں۔ ایک فلسطینی عیسائی جس کے خاندان کا تعلق بیت اللحم سے تھا، وہ یروشلم میں پیدا ہوئیں اور یہاں پرورش پائیں۔ پسماندگان میں ایک بھائی اور والدین شامل ہیں۔