اردو

urdu

ETV Bharat / international

Slain Al Jazeera journalist was icon of Palestinian coverage: ’شیرین ابو عاقلہ، فلسطین میں الجزیرہ کا چہرہ تھیں‘ - فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ

الجزیرہ کی ایک خاتون نامہ نگار جسے بدھ کے روز مغربی کنارے میں اسرائیلی چھاپے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا، مشرق وسطیٰ میں ایک انتہائی قابل احترام صحافی تھیں، جن کی بے لاگ کوریج کو بیحد پسند کیا جاتا تھا۔ An Al Jazeera correspondent who was shot dead on Wednesday during an Israeli raid in the West Bank was a highly respected journalist in the Middle East whose unflinching coverage was known to millions of viewers.

شیرین ابو عاقلہ، فلسطین میں الجزیرہ کا چہرہ تھیں‘
شیرین ابو عاقلہ، فلسطین میں الجزیرہ کا چہرہ تھیں‘

By

Published : May 12, 2022, 2:04 PM IST

شیرین ابو عاقلہ کی موت کی خبر نے پورے خطے کو دہلادیا۔ 51 سالہ صحافی دو دہائیوں سے زائد عرصے تک فلسطینی علاقوں میں الجزیرہ کےلیے رپورٹنگ کررہی تھیں، اس دوران انہوں نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کئی جھڑپوں کی رپورٹنگ کی تھی۔ اسرائیلی فورسس اور فلسطینیوں کے درمیان جھڑپوں میں ابھی تک ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ شیرین ابو عاقلہ کا نام بدھ کے روز عربی میں ٹویٹر پر ٹرینڈ ہوا، جس سے فلسطینی حمایت کا اظہار ہورہا تھا۔ صحافی کی تصویر مغربی کنارے کے شہر رملہ اللہ میں واقع مرکزی چوک پر نصب کی گئی جبکہ ہزاروں سوگوار الجزیرہ کے دفتر اور مشرقی یروشلم میں صحافی کے گھر پر پہنچے تھے۔ Abu Akleh's name trended across Twitter in Arabic on Wednesday, setting social media alight with support for the Palestinians

الجزیرہ اور عینی شاہدین کے مطابق بدھ کے روز اسرائیلی فائرنگ میں شیرین ابو عاقلہ کی موت ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ فورسس کی جانب سے صحافی کی پیٹھ پر گولی ماری گئی تھی۔ تاہم اسرائیل نے اس واقعہ کی تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم اس معاملہ میں امریکی و فلسطینی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

شیرین ابو عاقلہ، اسرائیلی قبضے سے متعلق تلخ حقائق کی کوریج کےلیے مشہور تھی اور وہ ایک فلسطینی صحافی کے طور پر فرنٹ لائنز کی طرح جڑی رہیں۔ ان کی موت سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے ہر فلسطینی کو بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے، چاہے وہ ایک صحافی ہی کیوں نہ ہوں۔ اگرچہ وہ ایک امریکی شہری بھی تھی اور اکثر گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ امریکہ جایا کرتی تھیں، لیکن وہ زیادہ تر مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے میں ہی رہتی اور کام کرتی تھیں۔ ایک فلسطینی عیسائی جس کے خاندان کا تعلق بیت اللحم سے تھا، وہ یروشلم میں پیدا ہوئیں اور یہاں پرورش پائیں۔ پسماندگان میں ایک بھائی اور والدین شامل ہیں۔

گذشتہ سال الجزیرہ کے ایک ویڈیو میں شیرین ابو عاقلہ نے 2000-2005 کے دوران خطرناک حالات میں کی گئی رپورٹنگ سے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’تمام خطرات کے باوجود ہم کام کرنے کےلیے پرعزم تھے‘۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ "میں نے صحافت کا انتخاب اس لیے کیا ہے تاکہ میں لوگوں کے قریب رہنا چاہتی ہوں، انہوں نے کہا تھا کہ ’حقیقت کو بدلنا شاید آسان نہیں ہوگا، لیکن کم از کم میں نے ان کی آواز کو دنیا تک پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں:

Al Jazeera Reporter Shot Dead: اسرائیلی فوج نے الجزیرہ کی رپورٹر کو گولی مار کر ہلاک کردیا

شیرین ابو عاقلہ نے 1997 میں الجزیرہ میں شمولیت اختیار کی تاہم ایک سال بعد عربی نیوز نیٹ ورک کا آغاز ہوا۔ ان کے متعدد اسائنمنٹس میں غزہ کی پانچ جنگیں اور 2006 کے دوران لبنان کے ساتھ اسرائیل کی جنگ شامل تھی۔ انہوں نے گھروں سے جبری بے دخلی، فلسطینی نوجوانوں کا قتل، اسرائیلی جیلوں میں بغیر کسی الزام کے قید سینکڑوں فلسطینیوں اور یہودی بستیوں کی مسلسل توسیع کے بارے میں قلم کو اٹھایا تھا۔ ابو عاقلہ کے پروڈیوسر وصام حماد نے کہا کہ شیرین میں شدید دباؤ کے دوران بھی پرسکون رہنے کی ناقابل یقین صلاحیت موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ "شیرین نے ہر وقت ہمارے پیشے کے اقدار کے ساتھ کام کیا،۔ انہوں نے ’شیرین ابو عاقلہ کو فلسطین میں الجزیرہ کا چہرہ قرار دیا‘۔

ABOUT THE AUTHOR

...view details