اقوام متحدہ: انسانی حقوق کے ایک سرکردہ گروپ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ، دنیا میں ہر جگہ لوگوں کے حقوق کو دبایا جا رہا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ہیومن راٹس واچ کے مطابق منتخب حکومتوں کی "سیاسی مصلحت" کی وجہ سے اہم معاملوں پر خاموشی تشویشناک ہے ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ عالمی رپورٹ میں کہا ہے کہ "ہمیں صرف 2023 کے انسانی حقوق کے چیلنجوں کو دیکھنا ہے تاکہ ہمیں یہ بتایا جا سکے کہ ہمیں 2024 میں مختلف طریقے سے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔"
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر تیرانہ حسن نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ مسلح تنازعات بڑھ گئے ہیں، جیسے کے اسرائیل-حماس جنگ ہے، اور اس مسئلہ پر حکومتوں کے دوہرے معیارات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
تیرانہ حسن نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ، بہت سی حکومتوں نے فوری اور جائز طور پر حماس کے ذریعہ 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حملے، ہلاکتوں اور مظالم کی مذمت کی۔ حملوں کے بعد، اسرائیل نے غزہ کے رہائشیوں کو دی جانے والی امداد کو "غیر قانونی طور پر روک دیا" اور غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، علاقے میں اس کی جارحیت سے 23,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ پورے محلوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، ابھی تک بہت سی حکومتیں جنہوں نے حماس کے جنگی جرائم کی مذمت کی تھی، اسرائیلی حکومت کے جنگی جرائم کا جواب دینے میں خاموشی اختیار کر لی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی خاموشی ایک خطرناک پیغام ہے کہ کچھ لوگوں کی زندگیاں دوسروں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ خاموشی بین الاقوامی قوانین کی قانونی حیثیت کو متزلزل کرتی ہے جو ہر کسی کے انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے اس بارے میں فیصلہ طلب کرنے پر جنوبی افریقہ کی تعریف کی کہ آیا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ حسن نے کہا کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک کو جنوبی افریقہ کے اقدام کی حمایت کرنی چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل عدالت کے فیصلے کی تعمیل کرے۔