سعودی پولیس نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کے بعد کہا کہ ایک سعودی شخص جس نے مبینہ طور پر ایک یہودی اسرائیلی صحافی Israel Journalist کی مقدس شہر مکہ میں داخل ہونے میں مدد کی تھی، کو گرفتار کر لیا ہے۔ دراصل اسرائیلی چینل 13 کے صحافی گِل تماری نے پیر کے روز غیر مسلموں پر پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام کے مقدس ترین شہر مکہ میں داخل ہوتے ہوئے اپنی ایک ویڈیو ٹوئٹر پر پوسٹ کی تھی جس کے بعد سوشل میڈیا پر سعودی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔Israel Journalist Enters Makkah
ایک پولیس ترجمان نے جمعہ کو سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے ذریعہ بتایا کہ مکہ کی علاقائی پولیس نے "ایک شہری کو غیر مسلم صحافی کی منتقلی اور داخلے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر عدالت کے حوالے کیا ہے۔سعودی پریس ایجنسی نے تماری کا نام نہیں لیا لیکن کہا کہ وہ ایک امریکی شہری ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے امریکی پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے ملک میں داخل ہوا تھا کیونکہ مملکت کے اسرائیل کے ساتھ کوئی رسمی تعلقات نہیں ہیں۔
اس کا مقدمہ استغاثہ کو بھی بھیجا گیا ہے کہ ان کے خلاف قوانین کے مطابق ضروری طریقہ کار اختیار کیا جائے گا، اور اسرائیلی شہری اب مملکت میں نہیں ہے۔واضح رہے کہ مکہ میں کسی بھی قومیت کے مسلمان داخل ہو سکتے ہیں اور غیر مسلموں کو داخلے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ مکہ کے حدود میں تمام لوگوں کے لیے ایک خاص ضابطہ اخلاق اور طرز عمل کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں عاجزی، پاکیزگی اور نماز کی مخصوص شکلیں شامل ہیں۔
اپنے تقریباً 10 منٹ کے کلپ میں، اسرائیلی صحافی گل تماری کوہِ عرفات کا دورہ کرتا ہے، جہاں ہر سال حج کے وقت مسلمان حجاج یہاں جمع ہوتے ہیں۔ جسے وقوف عرفہ کہا جاتا ہے اور یہ مناسک حج کا سب سے اہم رکن ہوتا ہے۔ اسارئیلی صحافی واضح کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ غیر قانونی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسی جگہ کی نمائش کرنا چاہتا تھا جو ہمارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لیے بہت اہم ہے۔ تماری نے عرفات کے میدان کو چھوڑ دیا جب اس نے کہا کہ مذہبی پولیس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس سے سوالات پوچھنا شروع کر دیے کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں۔
اسرائیلی صحافی تماری کے مکہ میں غیر قانونی داخلے پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ مسلمانوں اور سعودی عرب کے لوگوں نے اس دھوکہ دہی اور مقدس مقامات کی پامالی پر غم و غصے کا اظہار کیا۔
سوشل میڈیا میں ایک صارف نے لکھا کہ اگر وہ مسلمان ہے تو اس کی قومیت سے قطع نظر اس کا استقبال کیا جائے گا، لیکن اگر وہ مسلمان نہیں ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ اس سے اور ان تمام لوگوں سے تفتیش کی جائے گی جنہوں نے اس کے ساتھ تعاون کیا تھا اور معلوم کیا جائے گا کہ وہ مقدس سرزمین میں کیسے داخل ہوا۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز سے منع کیا ہے، اسے برداشت اور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔