عمان: عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوئے 20 سال گزر چکے ہیں، خود عراق تو اس رہنما کو بھول گیا ہے، لیکن پڑوسی ملک اردن میں صدام حسین کی مقبولیت آج بھی عروج پر ہے۔ 20 مارچ 2003 کو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں اسلحے کے ذخائر کی موجودگی کو جواز بنا کر عراق کی آزادی نامی آپریشن شروع کیا جس میں ڈیڑھ لاکھ امریکی اور 40 ہزار برطانوی فوجیوں نے حصہ لیا۔ امریکی حملے کے بعد سنہ 1979 سے برسر اقتدار صدام حسین روپوش ہوگئے اور 8 ماہ بعد امریکی فوجیوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا، ان پر مقدمہ چلا، انہیں سزا سنائی گئی اور 30 دسمبر 2006 کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
عراق میں اب صدام حسین کی تصویر نمایاں کرنا یا ان کے حق میں نعرہ لگانا قابل گرفتاری جرم ہے۔ لیکن اردن میں صورتحال مختلف ہے، یہاں آج بھی لوگ صدام حسین کی تصویر اپنے ساتھ رکھتے ہیں، صدام حسین کی تصویر پر مبنی اسٹیکرز اور موبائل کورز اردن کے نوجوانوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ دراصل اردن میں صدام حسین کو فلسطین کی حمایت، عرب قومیت پرستی اور مغربی تسلط کے خلاف ان کی صاف گوئی کی وجہ سے انہیں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ صدام کا دور دیکھنے والے اکثر اردنی انہیں ایماندار عرب رہنما کے نام سے یاد کرتے ہیں۔