روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعہ کو بھارت کے ساتھ دیرینہ دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے یوکرین کے بحران پر یکطرفہ نقطہ نظر کے بجائے ایک جامع نقطہ نظر اپنانے پر بھارت کی تعریف کی۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور بھارت کے دورے پر آئے لاوروف نے آج دہلی میں ملاقات کی۔ روس یوکرین جنگ کے درمیان لاوروف کے دورہ بھارت کو مغربی دنیا دیکھ بھی رہی ہے۔ اس وقت کئی مغربی ممالک کے اعلیٰ حکام اور سفارت کاروں کی مسلسل آمد بھارت میں ہے اور وہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی حمایت کرے۔Russian FM Visits India
اسی دوران بھارت آئے مغربی سفیروں میں امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر (این ایس اے) دلیپ سنگھ اور برطانیہ کی خارجہ سکریٹری لیز ٹرس بھی شامل ہیں۔امریکہ کی قیادت میں برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ملک یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کے خلاف روس پر سخت پابندیاں نافذ کر رہےہیں۔ ان کی طرف سے دباؤ ہے کہ بھارت روس سے تیل نہ خریدے۔ان کے علاوہ جرمنی کے قومی سلامتی کے مشیر (این ایس اے)جینس پلاٹنر بھی بھارت آچکے ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ کے ساتھ میٹنگ میں جے شنکر نے ابتدائی تقریر میں یوکرین کا ذکر کئے بغیر کہا کہ تنازعات کا حل بات چیت اور سفارتی طریقوں سے نکالا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہماری آج کی یہ میٹنگ وبا کے علاوہ ایک مشکل بین الاقوامی ماحول میں ہورہی ہے۔‘‘ وزیر خارجہ نے کہا، ’’بھارت ہمیشہ سے ہی بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے اختلافات اور تنازعات کو حل کرنے کے حق میں رہا ہے۔‘‘
لاوروف اپنے دو روزہ دورے پر جمعرات کی شام یہاں پہنچے۔ روس کا مقصد بھارت کے ساتھ تیل کی سپلائی اور باہمی تجارت میں روپیہ روبل استعمال کرنے کا معاہدہ کرنا ہے تاکہ مغربی ممالک کی پابندیوں سے بچا جا سکے۔ اپنے ابتدائی کلمات میں، لاوروف نے عالمی جغرافیائی سیاسی مساوات میں ایک نیا توازن قائم کرنے کے لیے روس کی کوششوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس بھارت تعلقات کی تاریخ کی وضاحت کے لیے دوستی سب سے اہم لفظ ہے، ماضی میں مشکل وقت میں بھی ہماری دوستی بہت مضبوط رہی ہے اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل میں بھی ہمارے تعلقات باہمی احترام کے ساتھ بڑھیں گے۔ باہمی مفادات میں توازن تلاش کرنے کی اہمیت برقرار رہے گی۔ روس کی خارجہ پالیسی میں ہندوستان کے ساتھ شراکت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: