واشنگٹن: امریکہ میں وسط مدتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کی روشنی میں ریپبلکن جماعت کو اُمید ہے کہ وہ ایوان نمائندگان میں اکثریتی سیٹیں حاصل کرلے گی اور اپنے حریف صدر جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دیں گے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 8 نومبر کو وسط مدتی انتخابات US Midterm Elections میں ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں پر ووٹنگ ہوئی، مختلف ریاستوں میں پولنگ کا وقت ختم ہوگیا ہے اور ووٹوں کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ ایوان نمائندگان میں ابھی ڈیموکریٹس کی 220 اور ریپبلکن کی 212 نشستیں ہیں۔ ایوان کے اقلیتی رہنما کیون میکارتھی نے ایوان نمائندگان میں کہا کہ ’واضح ہے کہ ہم ایوان میں اکثریت کے ساتھ ایک بار پھر واپس آرہے ہیں‘۔
ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی قانون ساز نے ایوان کے 82 سالہ موجودہ اسپیکر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ کل اٹھیں گے، ہم اکثریت میں ہوں گے اور نینسی پلوسی اقلیت میں شمار ہوں گی‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی عوام ایک ایسی اکثریت کے لیے تیار ہیں جو ملک کو نئی سمت میں لے جائے گی، ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن جماعت امریکا کو صحیح سمت میں لے جانے کے لیے تیار ہے۔ میکارتھی اور دیگر ریپبلکن رہنما پرجوش ہیں کہ وہ ایوان اور سینیٹ دونوں میں ڈیموکریٹک کنٹرول کو شکست دینے کے لیے پراعتماد ہیں۔
سی بی ایس نیوز کے مطابق اب تک کے نتائج کے مطابق ایوان زیریں میں ریپبلکن جماعت نے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔ سی بی ایس کے اندازے کے مطابق امکان ہے کہ ریپبلکن کو ایوان نمائندگان میں 202 نشستیں ملیں گی جبکہ ڈیموکریٹز کو 188 نشستیں حاصل ہوں گی، جبکہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے کم از کم 218 نشستوں کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق میکارتھی نئی اسپیکر بننے کے لیے سب سے آگے ہیں، میکارتھی کئی عرصے سے اسپیکر بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میکارتھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ اسپیکر کے لیے ان کی نامزدگی کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل ہوگی۔
اگرچہ صدر جو بائیڈن کا نام کسی بیلٹ پیپر پر نہیں تاہم امریکہ کے وسط مدتی انتخابات مستقبل کے ایجنڈے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایوان نمائندگان کی 435 اور ایک تہائی سینیٹ کی سیٹوں پر الیکشن ہوا ہے، ایوان میں جیت سے ریپبلکن جماعت کو اس کا کنٹرول ملنے کی امید ہے، تاہم سادہ اکثریت کے لیے ایوان میں 218 سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ امریکی ووٹرز ہر 2 برس بعد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں کس کو اکثریت ملتی ہے، صدر کیا نئی پالیسی منظور کرائیں گے اور اپوزیشن اس ایجنڈے کو ناکام بنا سکے گی یا نہیں۔