ماسکو: غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روس کے 24 فروری کو یوکرین پر حملے نے دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سب سے شدید تنازع کو جنم دیا ہے، یہ 1962 میں ’کیوبا میزائل تنازع‘ کے بعد روس اور مغرب کے درمیان سب سے بڑا تصادم ہے، اس جنگ کے خاتمے کا امکانات تاحال انتہائی کم نظر آرہا ہے۔ Putin on Ukraine Talks
روس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک لڑے گا جب تک اس کے تمام مقاصد حاصل نہیں ہو جاتے، جبکہ یوکرین نے اپنی سرزمین سے ہر روسی فوجی کو باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں کریمیا بھی شامل ہے جس کا روس نے 2014 میں الحاق کیا تھا۔ پوتن نے روس کے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ہم قابل قبول حل کے بارے میں ہر ایک کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ اُن پر منحصر ہے، مذاکرات سے انکاری ہم نہیں، وہ ہیں۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے رواں ماہ شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ بیشتر تنازعات کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے لیکن سی آئی اے کا اندازہ ہے کہ جنگ کے خاتمے کے لیے روس ابھی تک حقیقی مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ایک مشیر نے کہا کہ پوتن کو اس حقیقت کے ادراک اور یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ روس ہی ہے جو کسی قسم کے مذاکرات نہیں چاہتا۔ انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ روس نے تن تنہا یوکرین پر حملہ کیا اور شہریوں پر حملہ آور ہے، روس مذاکرات نہیں چاہتا لیکن اس سب کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کررہا ہے۔
روسی صدر پوتن نے کہا کہ یوکرین میں روس درست سمت میں کام کر رہا ہے کیونکہ امریکہ کی زیرقیادت مغرب روس کو تنہا کرنے کے لیے کوشاں ہے، دوسری جانب امریکہ اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ روس کے خاتمے کی سازش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم درست سمت میں کام کر رہے ہیں، ہم اپنے قومی مفادات، اپنے شہریوں، اپنے لوگوں کے مفادات کا دفاع کر رہے ہیں اور ہمارے پاس اپنے شہریوں کی حفاظت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔