یروشلم: فلسطینی قیدی خضر عدنان تقریباً تین ماہ کی بھوک ہڑتال کے بعد اسرائیلی جیل میں انتقال کرگئے۔ اس کی اطلاع اسرائیلی جیل حکام نے دی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیل سروس نے بتایا کہ عدنان نے طبی ٹیسٹ اور طبی علاج کروانے سے انکار کر دیا تھا اور منگل کی صبح اپنے سیل میں بے ہوش پائے گئے۔ عدنان نے 5 فروری کو گرفتار ہونے کے فوراً بعد بھوک ہڑتال شروع کر دی تھی۔ انھوں نے پچھلی گرفتاریوں کے بعد بھی کئی مرتبہ بھوک ہڑتال کی تھی، جس میں 2015 میں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے اپنی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے 55 دن کی بھوک ہڑتال بھی شامل تھی۔
اسرائیلی انسانی حقوق کے گروپ کے مطابق، اسرائیل اس وقت ایک ہزار سے زائد فلسطینیوں کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے حراست میں رکھے ہوئے ہے، جو 2003 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ غزہ میں قیدیوں کی ایسوسی ایشن نے عدنان کی موت کی خبر سنتے ہی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ خضر عدنان کو سازش کے تحت پھانسی دی گئی ہے۔ فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا نے فلسطینی قیدیوں کی سوسائٹی کے حوالے سے بتایا کہ مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر جنین کے قریب عرابہ نامی قصبے سے تعلق رکھنے والے 44 سالہ عدنان نے بغیر کسی الزام کے اپنی حراست کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 87 دنوں تک بھوک ہڑتال پر تھے۔