اردو

urdu

Military Court Trial of Civilians فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد

By

Published : Jun 27, 2023, 9:15 PM IST

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل پر فوری حکم امتناع دینے کی درخواست مسترد کردی۔

Pak SC
سپریم کورٹ آف پاکستان

اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ کا حصہ ہیں۔ آج سماعت کا آغاز ہوا تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے معاملے پر درخواست دائرکی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کرتے ہیں، جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نےکہا کہ گزشتہ روز آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی ہے، آئی ایس پی آر نے 102 افراد کے ٹرائل کی بات کی، اٹارنی جنرل اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے متضاد بیانات ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، عدالت میں وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ بہتر صورتحال بتاسکتے ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہمیں اٹارنی جنرل کے بیان پر یقین ہے۔

عمران خان کے وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا، فوجیوں کے ٹرائل اور عدالت کے اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا، کیا کوئی جرم آرمی ایکٹ کے اندر آسکتا ہے یا نہیں یہ الگ سوال ہے، دیکھنا یہ ہوگا کہ افواج سے متعلق جرائم پر ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوسکتا ہے یا نہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ ججز کی تقرری کا آرٹیکل 175(3) 1986 میں آیا، جن عدالتی نظام کی بات آپ کر رہے ہیں ان کے مقابلے میں اب حالات و واقعات یکسر مختلف ہیں۔ جسٹس منیب کا کہنا تھا کہ ایسا کیا ہے جس کا تحفظ آئین فوجی افسران کو نہیں دیتا لیکن باقی شہریوں کو حاصل ہے؟

وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ فوجی جوانوں اور افسران پر آئین میں درج بنیادی حقوق لاگو نہیں ہوتے، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے، فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے بغیر فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتی، 21 ویں آئینی ترمیم میں اصول طےکیا گیا کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔

جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا؟ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اندرونی تعلق کے بارے میں جنگ اور دفاع کو خطرات جیسے اصول 21 ویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے پاس آفیشل سیکرٹ ایکٹ دستیاب ہی نہیں، ہوا میں باتیں کی جا رہی ہیں، 2 ڈی ون کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں؟ عدالت کی معاونت کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کی اجازت کے صوابدیدی اختیار کا استعمال شفافیت سے ہونا چاہیے۔ عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن2 ڈی تو کہتا ہےکہ یہ ان افراد پر لاگو ہوگا جو افواج سے نہیں ہیں۔ وکیل عزیر بھنڈاری کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 ڈی کا اطلاق ان سویلین پر ہوتا ہے جو افواج کی کارروائی پر اثر انداز ہوں۔

وکیل عزیربھنڈاری کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ میں کچھ جرائم 2015 اور پھر 2017 میں شامل کیےگئے، احمد فراز کے فوج کے خلاف اشعار لکھنے پرکیس چلا تھا، احمد فراز کے قریبی ساتھی سیف الدین سیف نے ان کا کیس لڑا، احمد فراز کیس کے فیصلے میں بھی کہا گیا کہ سویلین پر آرمی ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا،9 مئی کے واقعات کی ایف آئی آر انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت کاٹی گئیں، یہ جرائم قابل ضمانت ہیں، آرمی ایکٹ میں نہیں آتے، اعتزازاحسن نے اپنی پٹیشن میں حبس بےجا کی بھی درخواست دی ہے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ جن جرائم کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان میں قانونی بدنیتی ہے، تمام جرائم پبلک ڈومین میں ہیں، 9 مئی واقعات کے ذمہ داروں کا اوپن پبلک ٹرائل انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت کیا جائے، ایف آئی آرانسداد دہشت گردی ایکٹ مگر ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو رہا ہے۔( یو این آئی)

ABOUT THE AUTHOR

...view details